تازہ ترین

منگل، 6 جون، 2023

دیوار برلن اور ہم مسلمان!

دیوار برلن اور ہم مسلمان! 

نقی احمد ندوی، ریاض، سعودی عرب 
جرمنی دوسری عالمی جنگ کے بعد دو حصوں میں بٹ چکا تھا۔ برلن کی دیوار کی تعمیر کا آغاز مشرقی جرمنی نے ۳۱ اگست ۱۶۹۱ کو شروع کیاجو مکمل ہونے کے بعد مغربی جرمنی اور مشرقی جرمنی کے درمیان کنکریٹ کی ایسی دیوار بن گیا جس نے تقریبا  تیس سال تک دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان تعلقات کے طوفانوں کی ایک خلیج قائم رکھی۔ بڑے بڑے ٹاور بنائے گئے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ مغربی جرمنی کا ایک بھی شخص مشرقی جرمنی میں داخل نہ  ہوسکے۔ اس میں نوکیلے تار کے ساتھ ساتھ کیلیں بھی گاڑ دی گئیں کہ کسی گاڑی کی بھی رسائی نہ ہوسکے۔ 


مگر ۹۸۹۱ میں دیوار برلن گر گئی، نفرت، عداوت اور دشمنی کی خلیج پٹ گئی اور یہ سب کچھ کیسے ہوا۔ عوام کا پریشر۔ اس کے بہت سے وجوہات تھے، سیاسی، اقتصادی، سماجی اور فوجی، مگر وہ عوام کا عزم تھا جس نے صرف تیس سال کی مختصر مدت میں ایک تاریخی فیصلہ لیتے ہوئے وہ دیوار گرادی جو ایک ہی قوم کو دوٹکڑوں میں بانٹ چکی تھی۔ 
اگر دیوار برلن گر سکتی ہے تو کیا امت اسلامیہ کے اندر فرقہ واریت اور شیعہ سنی کی بنیاد پر بنی دیواریں نہیں گرسکتیں۔ مشرقی جرمنی کمیونسٹ تھا اور مغربی جرمنی سرمایہ دارانہ نظام کا حامل جمہوری ملک۔ نظریاتی تفریق نے ایک حقیقی دیوار کھڑی کردی جب عوام کو سمجھ میں آیا کہ افتراق وانتشار میں انکو فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی نقصان ہے تو عوام نے آواز اٹھائی اور مفاد پرست قائدین اور حکمرانوں کو عوام کے مطالبہ کے سامنے سر جھکانا پڑا۔ 


امت اسلامیہ عالمی سطح سے لیکر شہر اور محلہ کی سطح پر فرقہ واریت کا شکار ہوچکی ہے۔ وہ امت جس کا قرآن ایک تھا، نبی ایک تھا، قبلہ ایک تھاوہ ملک در ملک اور شہر در شہر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں نہ صرف تقسیم ہوکر رہ گئی ہے بلکہ ایک دوسرے کی جان تک لینے کے برسرپیکار رہتی ہے۔ اگر ہمارے مسلکوں کے خود غرض علماء اور مفاد پرست قائدین نے ہمیں تقسیم در تقسیم کررکھا ہے تو کیا عوام جس میں ہم اور آپ جیسے قارئین شامل ہیں یہ کوشش نہیں کرسکتے کہ فرقہ واریت کی دیواریں منہدم ہوں اور اتحاد واتفاق کی راہیں کھلنے لگیں۔  


ایسا کیوں نہیں ہم کرتے کہ ہر اسٹیج، ہر میڈیا، ہر پلیٹ فارم اور ہر ذریعہ ابلاغ کو نفرت کے بجائے محبت، دشمنی کے بجائے دوستی، نظریاتی اختلافات کے بجائے نقطہ اتفاق کی تشہیر وترویج کے لئے استعمال کرنا شروع کردیں۔ تاکہ اگر دیواریں نہ گر سکیں تو کم ازکم ہمارے دلوں کی دیواروں پر جو نفرت وعداوت کی دھول جم چکی ہے وہ کم سے کمتر ہوجائیں۔ 

مجھے حیرانی اس بات پر ہوتی ہے کہ اقیموا الصلاہ کے اندر امر (حکم) کی تعمیل تو بہ خوشی ہم قبول کرتے ہیں اور اس پر عمل کرنے کی نہ صرف ترغیب دیتے ہیں بلکہ اصرار کرتے ہیں مگر اسی قرآن میں اعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تتفرقوا کے اندر حکم کی تعمیل کرنا تو دور بلکہ اس کے لئے ایسے نظریاتی، عقائدی اور فکری اختلافات کے تراشیدہ بہانوں کو سامنے پیش کردیتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ اس آیت کا اصل مفہوم ہی کھوگیا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad