تازہ ترین

پیر، 8 اپریل، 2024

یہودیوں کی ’’لال گائے‘‘ کا مسئلہاس کے ذبح ہونے پر ساری دنیا میں ایک طوفان آسکتاہے

یہودیوں کی ’’لال گائے‘‘   کا مسئلہ
اس کے ذبح ہونے پر ساری دنیا میں ایک طوفان آسکتاہے

ڈاکٹر ظفرالاسلام خان
سنہ۲۰۲۲ کے اواخر میں ٹکساس ( امریکہ) سے پانچ  (5) گائیں اسرائیل لائی گئیں ۔ تب سے  ان کو  فلسطین میں مغربی کنارے کی غیرقانونی یہودی آبادی شیلو میں ایک خفیہ جگہ پر رکھا گیا ہے۔ ان کو ذبح کر کے  ، ان کا گوشت جلا کر اور اس کو راکھ کو پانی میں  گھول کر  یہودیوں پر چھڑکاؤ کیا  جائے گا جس سے وہ پاک ہو جائیں گے ۔ پھر وہ  آزادی سے مسجد اقصی  کےکمپاؤنڈ میں جا سکیں گے اور اسے توڑکر اپنا تیسرا معبد (ہیکل) بناسکیں گے۔ یہودیوں کا یہ ارادہ حماس کے ۷؍اکتوبرکو  قابض اسرائیل پر حملہ کرنے  کاایک سبب ہے۔  ربی ایتسحاق مامو Yitzchak Mamo نے ،جو تیسرے معبد کی تحریک سے جڑے ہیں، کہا ہے کہ اس اپریل میں اس گائے کو ذبح کرنے کا عمل ہو گا۔ 


۷؍اکتوبر۲۰۲۳ کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے سے ڈھائی ماہ قبل اسرائیلی ’’چینل ۱۲ ‘‘ٹیلیوژن نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ کے شہر ٹکساس سے ۵گائیں آچکی ہیں جن کو جینیٹک  انجینیئرنگ  کے ذریعے تیار کیا گیا ہے۔  یہ پانچوں گائیں پچھلی جنوری کو دوسال کی ہو گئی ہیں اور تیسرے سال کی عمر میں داخل ہونے کے بعد ہی ان کو ذبح کیا جا سکتا ہے۔ یہ کام بیت المقدس میں واقع  جبل زیتون پر، جو مسجد اقصی کے سامنے ہے،  عمل میں آئے  گا۔ اس کے بعد مسجد اقصی کو توڑ کر تیسرے معبد کو بنایا جائے گا۔ پھر  یہودیوں کے اعتقاد کے مطابق حضرت مسیح آئیں گے جو ان کو بچائیں گے اور پھر  دنیا بھر سے یہودی اسرائیل آجائیں گے۔ 


یہودی کیلنڈر کے مطابق اس گائے کو  ۲؍نیسان  کو یا اس کے بعد ذبح کیا جاسکتا ہے۔ یہ تاریخ اس سال ۱۰؍اپریل  کو پڑ رہی  ہے جو کہ عیدالفطر کا دن بھی ہے۔یہودیوں کے اعتقاد کے مطابق حضرت موسیؑ نے  بنی اسرائیل کو اسی دن ایک لال گائے  ذبح کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے بعد سے اسی دن یہودی تاریخ میں ۸ دفعہ لال گائے کو ذبح کیا گیا ہے۔ حضرت موسیؑ کے زمانے کے واقعے  کو ملا کر یہ عمل ابتک صرف نو ( ۹)بار کیا گیا ہے۔ آخری بار ڈھائی ہزار سال پہلے  دوسرے معبد کو بنانے سے قبل یہ رسم ادا کی  گئی تھی۔ اور اب اس کو ذبح کرنے  پر یہ عمل  دسویں بار ہو گا۔  


اس گائے کا ذکر قرآن پاک میں  بھی ہے (بقرہ: ۶۷۔۷۳) لیکن قرآن پاک میں اس کا رنگ  لال نہیں  بتایا گیا ہے۔ حضرت موسی کے زمانے میں کسی یہودی نے ایک دوسرے یہودی کو قتل کردیا  تھا لیکن کوئی اس کا اعتراف نہیں کررہا تھا۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا کہ وہ  ایک گائے ذبح کریں۔ انھوں نے  بہت حجت کے بعد ایک  گائے ذبح کی۔ پھر اس گائے کے گوشت کے لوتھڑے سے مقتو ل یہودی کومارا گیا جس سے وہ زندہ ہوگیا  اور اس نے بتا دیا کہ کس نے اس کو قتل کیا تھا۔ قرآن پاک کے مطابق اس گائے کا رنگ کھلتا ہوا پیلا تھا (البقرہ ۶۷۔۷۳) ۔ 

اس معبد کے لئے ساز و سامان اور گانے بجانے والے سب برسوں سے تیار ہیں۔ اس کام  کو انجام دینے کے لئے بیت المقدس میں ٹمپل انسٹی ٹیوٹ بنایا گیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل اسرائیلی اخبارات میں اس کام کے لئے والنٹیرز کے لئے اعلان شائع ہوا ہے۔ اس نظریہ کو ماننے والوں کے نزدیک غزہ کی جنگ اور تیسرے معبد کی تعمیر کے درمیان ایک تعلق ہے۔ یہ معبد مسجد اقصی کی جگہ بنے گا۔ اس کی جگہ وہی ہو گی جہاں آج قبۃ الصخرہ قائم ہے۔ 


یہ مقدس گائے  لال رنگ کی  ہونی چاہئے ۔ اس میں کسی اور رنگ کا کوئی رویاں بھی نہیں ہونا چاہئے، اس کو کسی کام کے لئے استعمال نہ کیا گیا ہو، اس کی گردن میں رسی نہ ڈالی گئی ہو اور اسرائیل میں اس کو پالا گیا ہو۔ اس گائے کو تیسرے سال میں داخل ہونے پر ہی  ذبح کیا جاسکتا ہے۔ اس کو ذبح کرکے اس  کےگوشت کو جلایا جائے گا اور اس کی راکھ کو پانی میں گھول کر اسے یہودیوں  پر چھڑکا  جائے گا جس سے وہ ’’ پاک ‘‘ ہو جائیں گے۔ پھر وہ   مسجد اقصی میں جا سکیں گے اور اسے توڑ کر وہاں  تیسرا  یہود ی معبد بنائیں گے۔ پہلا معبد حضرت سلیمان نے دسویں صدی قبل مسیح  میں بنایا تھا ۔ اس کوبابل کے بادشاہ  بخت نصر نے  ۷۲۱ قبل مسیح میں پوری طرح توڑ دیا تھا۔ پھر یہودیوں نے دوسرا معبد ۵۱۵ قبل مسیح بنایا۔ اس کو بھی رومن جنرل ٹائٹس   نے سنہ ۷۰ عیسوی میں بالکل تباہ کردیا۔ یہودیوں کے اعتقاد کے مطابق اس  دوسرے معبدکی صرف ایک دیوار بچی ہےجو مسجد اقصی کی مغربی دیوار ہے۔اسے یہودی ’’ دیوار گریہ‘‘ کہتے ہیں۔ 


یہودیوں کا اعتقاد ہے کہ میت کو چھونے والا بلکہ قبرستان میں بھی  داخل ہونے والا ہر یہودی نجس ہے اور یہ نجاست  نسل بعد نسل چلتی رہتی ہے ۔ اس طرح سارے یہودی نجس ہیں۔صرف  لال گائے کی راکھ ان کو پاک کرسکتی ہے۔  اس نجاست کی وجہ سے مذہبی یہودی مسجد اقصی  کے کمپاؤنڈ میں جانے کو گناہ سمجھتے ہیں کیونکہ مسجد اقصی مقدس یہودی معبد کی جگہ پر قائم ہے۔ نجاست دور ہونے کے بعدیہودی  مسجد اقصی کے اندر جا  سکتے ہیں اور اسے توڑ کر اپنے تیسرے معبد کی تعمیر  شروع کرسکتے ہیں۔


یہودیوں کے یہاں ہر یہودی ناپاک ہے جبکہ  عیسائیوں کے یہاں فطری  معصیت   original sin کا تصور ہے جس کے تحت تمام نسل انسانی حضرت آدم اور حضرت حوّا علیہما السلام کے ’’گناہ‘‘ کا بوجھ اٹھا رہی ہے اور وہ اسی وقت ختم ہو گا جب کوئی  انسان حضرت مسیح پر ایمان لائے۔  لیکن اسلام میں ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ وہ کسی گناہ کو لے کر نہیں پیدا ہوتا۔ سورہ بقرہ آیت۳۷ کے مطابق یہ عمل حضرت آدمؑ کے جنت سے پہلے ہی ہو گیا تھا جب اللہ پاک نے حضرت آدمؑ  کوتوبہ کرنے کا طریقہ بتایا اور ان کو معاف کر دیا  (فَتَلَقَّى آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ)۔
اسرائیل کا سب سے بڑا مذہبی رہنما حاخام اعظم  Chief Rabbi آج بھی یہودیوں کے مسجد جانے کو حرام قرار دیتا ہے کیونکہ اس مقدس جگہ نجس یہودی نہیں جاسکتے ہیں۔ یہ ممانعت ۱۹۲۱ میں اس وقت کے حاخام اعظم کے فتوے سے جاری ہے۔ 

  لیکن یہ ممانعت لال گائے کی راکھ ڈالنے کے بعد ان یہودیوں کے لئے ختم ہو جائے گی جن پر راکھ ڈالی جائے گی ۔ذبح کرنے کی شرط میں یہ داخل ہے کہ یہودی حاخام یا ربی جو اسے ذبح کرے وہ بیت المقدس کے کسی  گھر یا اسپتال میں پیدا ہوا ہو اور اس نے کسی میت کو نہ چھوا ہو۔ ایک لال گائے کی راکھ کو پانی میں گھول کر اتنا محلول بنایا جاسکتا ہے جو کروڑوں لوگوں کی تطہیر کے لئے کافی ہو گا۔ 
اس سے پہلے بھی مسجد اقصی کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہوچکی ہے۔ ۲۱؍اگست۱۹۶۹ کویہودیوں نے  مسجد اقصی میں گھس کر آگ لگائی تھی جس میں بہت نقصان ہوا اور  سلطان صلاح الدین ایوبی کا منبر جل گیا تھا۔ اس واقعے کے خلاف پورے عالم اسلام میں مظاہرے ہوئے تھے۔ اس کے بعد سے اسرائیل نے مسجد اقصی کمپاؤنڈ میں ایک چھوٹا سا معبد بنانے کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔ 


موجودہ وزیر اعظم بنجامین نتن یاہو پوری طرح سے متشدد یہودیوں کی اس کوشش کا ساتھ دے رہا ہے۔ اس کی حکومت میں ایسے وزیر ہیں جو اس  پروجکٹ کی تایید کرتے ہیں۔ ان میں نیشنل سیکورٹی کا وزیر ایتمار بن غفیر اور وزیر خزانہ بتسیلیل سموتریچ شامل ہیں۔  ان لوگوں کا خیال ہے کہ مسجد اقصی پر قبضے اور تیسرے معبد کی تیاری سے  موجودہ جنگ میں ان کو فتح حاصل ہو جائے گی۔ لیکن  اس سے یہودی اور مسلمانوں کی لڑائی میں ایک نیا موڑ آجائے گا اور معاملہ فلسطین کے باہر تک پہنچ سکتا ہے۔ 


  امریکہ میں انجیلی  عیسائی   Evangelical Christians اس مہم کی تایید کرتے ہیں لیکن ان کا مقصد دوسرا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تیسرے معبد کے بننے کے بعد حضرت عیسیؑ دوبارہ زمین پر آئیں گے اور   عالمی  جنگ آرماگڈون Armageddon شروع ہو گی جس کے بعد عیسائی دنیا پر چھا جائیں گے اور یہودیوں کا خاتمہ  ہو جائے گا۔ 
(ختم)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad