عبد الحمید الکاتب کی سوانح
تحریر آبشارالدین
اموی دور کے آخر زمانے کہ کچھ پہلے تک فن مکتوب نگاری کی کوئ ادبی حیثیت نہ تھی اور نہ کوئ ایسی شمعع ملتی ہے جس کی روشنی میں ان کے مابعد کے ادباء اس فن میں مزید چراغ روشن کرسکے
اموی دور کے آخری خلیفہ مروان بن محمد کے زمانے میں ایک خدا داد صلاحیت کے مالک عبد الحمید کا وجود فن مکتوب نگاری میں بحیثیت امام کے وجود ہوا جومروان بن محمد کے بحیثیت سیکریٹری برائے دفتری وخط و کتابت کے عہدہ پر فائز ہوئے
اور انہوں نے اس فن میں ایک ایسا نرالا وپسندیدہ اسلوب اور اندازنگارش ایجاد کیا جو آگے چل کر فن نثر میں بحیثیت ایک فن کے وجود میں آیا جسے دنیا میں فن الرسائل الدیوانیہ کے نام سے منسوب کیا
ان کے متعلق نقاد جاحظ اپنے زمانے کے نئے پود کو نصیحت کرتے ہوئے کہتاہے کہ وہ اپنے اسلوب نگارش کو اپنے لیئے نمونہ بنائیں کیونکہ وہ خود ان سے متاثر تھا اور عبد الحمید الکاتب کو الاکبر نام سے منسوب کرتا
عبدالحمید الکاتب کی پیدائش تقربا ٦٨٠ء میں دریا فرات کے کنارے واقع شہر انبار میں ہوئ اور ان کے اہل وعیال ان کو لیکر شام کے ایک شہر الرقہ کی طرف ہحرت کی
جہاں اس کی نشونماہوئ جس وجہ سے تاریخ میں ان کو عربی الاصل اور فارسی الولا کہتے ہیں
اور اسی وجہ سے ان کو فارسی زبان پر کافی دسترس بھی حاصل تھی
عبد الحمید الکاتب کے نشونما اور ان کے بچپن اور کی تعلیم اور ان کی حیات کے کے متعلق تاریخ دانو ں کو کچھ بھی دریافت نہیں ہوا سوائے اس کے جس کو مورخ ابن خلکان نے ذکر کیا انہوں نے اپنی زندگی بحیثیت مدرس کے شروع کی اور وہاں سے عراق کے مختلف علاقوں میں گھوم کر بچوں کو پڑھایا کرتے تھے
اور انہوں نے الکتاب الدیوانیہ کے اصول ابوالعلا سالم بنوعبداللہ جو ہشام بن عبد الملک کا مولا تھا ان سے حاصل کیا
عبدالحمید الکاتب کی ملاقات مروان بن محمد سے اس وقت ہوئ جب وہ جزیرہ آرمینیہ کا والی تھا انہوں اپنے دیوان میں بحیثیت کاتب کے عہدہ کے صدر سے نوازا
چنانچہ بعد میں جب مروان بن محمد خلیفہ ہوئے تو اپنے ساتھ عبد الحمید کر آرمینیہ سے دمشق لے آئے اور حکومت کا کاتب مقررکیا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں