تازہ ترین

جمعہ، 24 نومبر، 2017

عبد الحمید الکاتب کی سوانح


عبد الحمید الکاتب کی سوانح
 
تحریر آبشارالدین
اموی دور کے آخر زمانے کہ کچھ پہلے تک فن مکتوب نگاری کی کوئ ادبی حیثیت نہ تھی اور نہ کوئ ایسی شمعع ملتی ہے جس کی روشنی میں ان کے مابعد کے ادباء اس فن میں مزید چراغ روشن کرسکے 
اموی دور کے آخری خلیفہ مروان بن محمد کے زمانے میں ایک خدا داد صلاحیت کے مالک عبد الحمید کا وجود فن مکتوب نگاری میں بحیثیت امام کے وجود ہوا جومروان بن محمد کے بحیثیت سیکریٹری برائے دفتری وخط و کتابت کے عہدہ پر فائز ہوئے 
اور انہوں نے اس فن میں ایک ایسا نرالا وپسندیدہ اسلوب اور اندازنگارش ایجاد کیا جو آگے چل کر فن نثر میں بحیثیت ایک فن کے وجود میں آیا جسے دنیا میں فن الرسائل الدیوانیہ کے نام سے منسوب کیا 
ان کے متعلق نقاد جاحظ اپنے زمانے کے نئے پود کو نصیحت کرتے ہوئے کہتاہے کہ وہ اپنے اسلوب نگارش کو اپنے لیئے نمونہ بنائیں کیونکہ وہ خود ان سے متاثر تھا اور عبد الحمید الکاتب کو الاکبر نام سے منسوب کرتا
عبدالحمید الکاتب کی پیدائش تقربا ٦٨٠ء میں دریا فرات کے کنارے واقع شہر انبار میں ہوئ اور ان کے اہل وعیال ان کو لیکر شام کے ایک شہر الرقہ کی طرف ہحرت کی
جہاں اس کی نشونماہوئ جس وجہ سے تاریخ میں ان کو عربی الاصل اور فارسی الولا کہتے ہیں 
اور اسی وجہ سے ان کو فارسی زبان پر کافی دسترس بھی حاصل تھی 
عبد الحمید الکاتب کے نشونما اور ان کے بچپن اور کی تعلیم اور ان کی حیات کے کے متعلق تاریخ دانو ں کو کچھ بھی دریافت نہیں ہوا سوائے اس کے جس کو مورخ ابن خلکان نے ذکر کیا انہوں نے اپنی زندگی بحیثیت مدرس کے شروع کی اور وہاں سے عراق کے مختلف علاقوں میں گھوم کر بچوں کو پڑھایا کرتے تھے 
اور انہوں نے الکتاب الدیوانیہ کے اصول ابوالعلا سالم بنوعبداللہ جو ہشام بن عبد الملک کا مولا تھا ان سے حاصل کیا 
عبدالحمید الکاتب کی ملاقات مروان بن محمد سے اس وقت ہوئ جب وہ جزیرہ آرمینیہ کا والی تھا انہوں اپنے دیوان میں بحیثیت کاتب کے عہدہ کے صدر سے نوازا 
چنانچہ بعد میں جب مروان بن محمد خلیفہ ہوئے تو اپنے ساتھ عبد الحمید کر آرمینیہ سے دمشق لے آئے اور حکومت کا کاتب مقررکیا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad