تازہ ترین

ہفتہ، 4 جنوری، 2020

فیض کی نظم کو ہندو مخالف بتانے والے لوگوں پر اب غصہ نہیں بلکہ ہنسی آتی ہے:مولانا ابراہیم قاسمی

دیوبند،دانیال خان(یواین اے نیوز4جنوری2020)کانپور کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنا لوجی کے طلباء کے ذریہ نکالے گئے پر امن احتجاجی مظاہرہ میں پاکستان کے مشہور شاعر فیض احمد فیض کی مشہور زمانہ نظم (ہم دیکھیں گے) گائے جانے پر وانسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر منیندر اگروال اور یوپی پولیس کے رویہ پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے معروف دینی ادارہ جامعہ قاسمیہ دار التعلیم والصنعہ دیوبند کے مہتمم مولانا ابراہیم قاسمی نے کہا کہ فیض احمد فیض کی نظم کو ہندو مخالف بتانے والے لوگوں پر اب غصہ نہیں ہنسی آتی ہے،حکومت بولنے کی آزادی پر پابندی لگانا چاہتی ہے۔

نظم کو جانچ کے دائرہ میں رکھا جا رہا ہے،شہریت ترمیمی ایکٹ کی مخالفت میں رنگولی بنانے والے افراد کو جیل میں ڈالا جا رہا ہے،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا ملک کس سمت جا رہا ہے،مولانا ابراہیم قاسمینے کہا کہ فیض کی نظم بہت چھوٹی سی ہے لیکن اسکا اثر بہت بڑا ہے،یہ نظم ہندو مخالف نہیں ہے،یہ آج سے ہی نہیں بلک روز اول سے ہی ایک انقلابی نظم بنی ہوئی ہے،جس طرح سے اس نظم کو جانچ کے دائرہ میں شامل کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اور افسر شاہی کس اجینڈے پر کام کر رہی ہے انہوں نے سوالیہ لہجہ میں معلوم کیا کہ اس نظم کو سمجھنے کی قابلیت کیا اسکی جانچ کرنے والی ٹیم کے پاس ہے،افسوس کی بات ہے کہ اب ادب کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

مولانا ابراہیم قاسمی نے کہا کہ فیض کی نظم کو سطحی بنیاد پر پڑھنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ ایسے کئی ہندی کوی ہیں جنہوں نے بہت سی مسلم مخالف کویتائیں اور گیت لکھے ہیں لیکن حکومت انکو اعزاز دینے کا کام کر رہی ہے اور فیض احمد فیض کی نظم کو ہندو مخالف قرار دیکر جانچ کی جا رہی ہے صاف ظاہر ہے کہ یوپی حکومت کی انڈراسٹینڈنگ ادب کو لیکر کتنی کمزور ہے۔مولانا ابراہیم قاسمینے کہا کہ اس نظم کا ہندو مسلم سے کوئی تعلق نہیں ہے،حکومت شہریت ترمیمی ایکٹ کی مخالفت میں جاری پر امن احتجاجی مظاہروں سے عوام کو دور کرنے کے لئے اس طرح کی چھوٹی حرکتیں کر پر امن تحریق کو کچلنے کی کوشش کر رہی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad