تازہ ترین

بدھ، 20 مئی، 2020

سعودی عرب نے باضابطہ طور پرمجرموں کو تعزیر میں کوڑے مارنے کی سزا ختم کردی ۔

سعودی عرب(یواین اے نیوز20مئی2020)سعودی عرب کی وزارتِ عدل نے ٹویٹر پر ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’اب کوڑوں کے متبادل کے طور پر جیل یا جرمانے یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔عدالتیں مقدمات کی سماعت کریں گی،ان کا جائزہ لیں گی اور ہر مقدمے کا اس کی نوعیت کے اعتبار سے منصفانہ فیصلہ کریں گی۔‘‘سعودی عرب کے وزیر انصاف ولید السمعانی نے اس ضمن میں منگل کو تمام عدالتوں کو ایک سرکلر جاری کردیا ہے اور اس میں انھیں عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے سے آگاہ کردیا ہے کہ عدالتوں کو تعزیر کے طور پر اب کوڑے لگانے کی سزا دینے کے بجائے قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دینی چاہییں۔

سعودی عرب کی عدالتِ عظمیٰ نے اپریل میں ماتحت عدالتوں کے نظام میں ایک شاہی فرمان کے تحت کوڑوں کی سزا ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔عدالتِ عظمیٰ کے جنرل کمیشن نے عدالتوں کے لیے رہ نما اصولوں پر مبنی ایک ہدایت نامہ جاری کیا تھا۔اس میں انھیں ہدایت کی تھی کہ وہ مختلف تعزیری جرائم کے مرتکب افراد کو اب کوڑے مارنے کے بجائے صرف جرمانہ عاید کرسکتی ہیں یا قید کی سزا سنا سکتی ہیں یا بیک وقت یہ دونوں سزائیں سنا سکتی ہیں۔

واضح رہے کہ تعزیر کے زمرے میں ایسے جرائم آتے ہیں جن کی شریعت اسلامی نے سزا(حد) مقرر نہیں کی ہے اور قاضی (جج) قرآن وسنت کی روشنی میں اجتہاد کے ذریعے ان کی سزاؤں کا تعیّن کرسکتا ہے۔سعودی عرب کے انسانی حقوق کمیشن نے کوڑوں کی سزا کے خاتمے کا خیرمقدم کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ ایک اہم عدالتی اصلاح ہے۔اس کا شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد کی براہِ راست نگرانی میں نفاذ کیا گیا ہے۔ یہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی جانب ایک تاریخی قدم ہے۔یہ گذشتہ پانچ سال کے دوران میں کی جانے والی انسانی حقوق کی ستر اصلاحات میں سے ایک ہے۔

کمیشن کے مطابق ’’اس عدالتی اصلاح سے سعودی عرب میں مقیم شہریوں اور مکینوں کی زندگیوں پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے،خواتین ، ورکروں ، نوجوانوں اور ضعیف العمر افراد سمیت سب کا معیار زندگی بلند ہوگا۔‘‘سعودی کمیشن کا کہنا تھا کہ مملکت میں ایک عرصے سے اس بات پر اتفاق رائے پایا جارہا تھا کہ کوڑوں کی سزا موجودہ صورت حال سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی ہے۔بہت سے مقدمات میں تو جج صاحبان خود ہی قانون کی تشریح کرتے ہوئے ملزموں کو کوڑے مارنے کی سزا سنارہے تھے۔

واضح رہے کہ سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے گذشتہ ماہ ایک فرمان کے ذریعے 18 سال سے کم عمری میں سنگین جرائم کے مرتکب افراد کو سنائی گئی سزائے موت بھی ختم کردی تھی۔سعودی عرب کے انسانی حقوق کمیشن کے صدر عواد العواد نے اس شاہی فرمان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ اگر کسی فرد (مرد یا عورت) نے نوعمری میں کسی سنگین جرم کا ارتکاب کیا تھا اور اس کو سزائے موت سنائی گئی تھی تو اب اس سزا پر عمل درآمد نہیں ہوگا اور اس کا سرقلم نہیں کیا جائے گا۔اس کے بجائے اس کو دس سال تک قید کی سزا سنائی جائے گی۔‘‘

اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی ) سے وابستہ انسانی حقوق کے ایک گروپ نے سعودی عرب میں مختلف جرائم پر کوڑوں اور نوعمروں کو سنگین جرائم پر سنائی گئی سزائے موت کے خاتمے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا تھا۔اوآئی سی کے تحت آزاد مستقل انسانی حقوق کمیشن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’’ان تبدیلیوں سے سعودی عرب کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے تقاضوں اور اسلام کے فلسفہ انصاف کے اصولوں کے مطابق داخلی قانون سازی کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔‘‘

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad