تازہ ترین

پیر، 8 جون، 2020

ماہ شوال کی خصوصیات اور ہمارا معاشرہ

پیر عادل مجید ندوی متعلم تخصص فی الحدیث دارالعلوم ندوةالعلماء لكهنو
ہر مہینہ کی کچھ نہ کچھ خصوصیات ہیں ، جن کی بنا پر اللہ تعالی نے ایک مہینہ کو دوسرے مہینے سے ممتاز کیا ہے ، یہ مہینہ شوال کا ہے ، شوال ہجری سال کا دسواں مہینہ ہے ، اس ماہ کی بھی بہت سی خصوصیات و فضائل ہیں،ان میں سے ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کی پہلی تاریخ یعنی یکم شوال کو مسلمانوں کی دو شرعی عیدوں میں سے پہلی عید یعنی عید الفطر کا شرف حاصل ہے ، یہی وہ دن ہے جس میں مسلمان نہا دھو کر صاف ستھرے کپڑے پہن کر   کر اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ ، واللہ اکبر اللہ کبر وللہ الحمد کی صدائیں بلند کرتے اور اللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان کرتے ہوئے عید گاہ جاتے ہیں ، وہاں دو رکعت عید کی نماز ادا کرتے اور امام سے خطبہ سن کر رب العزت کی بارگاہ میں اپنے روزوں ، تراویح، اور دیگر عبادات کی مقبولیت کی درخواست دے کر  اپنے گھروں کو شادں و فرہاں لوٹتے ہیں ۔کیونکہ یہ دن در حقیقت روزہ دار کے انعام و بخشش کا دن ہوتا ہے۔

دین اسلام میں رمضان کے فرض روزے کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی روزہ رکھنا ثابت ہے  چنانچہ حصرت عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول اللہ ﷺ پیر اور جمعرات کے روزے رکھتے تھے ( ترمذى:745 ) اسی طرح معاذۃ عدويہ بيان كرتى ہيں كہ انہوں نے عائشہ رضى اللہ تعالى سے دريافت كيا: كہ كيا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہر ماہ تين روزے ركھا كرتے تھے؟ تو انہوں نے جواب ديا جى ہاں، تو ميں نے انہيں كہا: وہ مہينہ كے كونسے دنوں ميں يہ روزے ركھا كرتے تھے ؟ تو انہوں نے جواب ديا: انہيں كوئى پرواہ نہيں مہينہ كے كسى بھى دنوں ميں ركھ ليا كرتے تھے (صحيح مسلم : 1160 )۔

ماہ شوال کی ایک دوسری خصوصیت یہ ہے کہ رمضان کے روزوں کے بعد اگر کوئی اس ماہ میں چھ روزے رکھ لے تواسے پورے سال کے روزوں کا ثواب مل جائے گا ، حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے اس نے گویا ہمیشہ روزے رکھے،یعنی اس کو پورے سال روزے رکھنے کا ثواب مل جائے گا ( صحیح مسلم 1164)

 اس سے معلوم ہوا کہ شوال کے چھ روزے مسنون ہیں ، اور ان کی بڑی فضیلت ہے ۔
شوال کے ان روزوں کو عید کے بعد ایک ساتھ بھی رکھ سکتے ہیں اور متفرق طریقے پر بھی ، اور عید کے دن کو چھوڑ کر شروع سے لے کر آخری شوال تک کسی بھی وقت روزہ رکھ سکتے ہیں ، کیونکہ ان احادیث میں اس طرح کی کوئی قید نہیں ہے کہ انہیں مسلسل رکھے جائیں یا عید کے فورا بعد ان کا اہتمام کیا جائے ،البتہ عید کا دن مسلمانوں کے تہوار اور خوشی و مسرت کا دن ہے ، خود کھانے اور دوسروں کو کھلانے کا دن ہے اس لئے اس دن روزہ رکھنا حرام ہے۔حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے عید الفطراور عیدقربان کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ، ایک روایت میں ہے عید الفطر اور عید الاضحیٰ دونوں دن روزہ نہ رکھےجائیں۔ (صحیح البخاری 1991)۔

ہمارے معاشرے میں کچھ نیک بخت لوگ ان روزوں کا اہتمام کرتے ہیں ،لیکن افسوس کی بات یہ ہیکہ کچھ لوگ مسلسل چھ روزے رکھ کر شوال کے روزوں کی عید مناتے ہیں ،جس کی کوئی حقیقت قرآن وحدیث میں نہیں ملتی ،نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا’’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے  عید کے لئے دو دن مقرّر فرما دیے ہیں،ایک  عیدالاضحٰی اور دوسرا  عیدالفطر ہے ‘( ابو داؤد 1136) مذکورہ بالا حدیث سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ عیدین (عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ ) کے علاوہ اور کوئی عید نہیں ہے ، اسلئے ان بدعات و رسومات سے بچنے کی کوشش کی جائے اور ان دونوں دن کے روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔۔

  ان چھ روزوں کی فضیلت  اللہ کا ہمارے اوپر بڑا ہی فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمارے لئے یہ آسانی رکھی کہ رمضان کے بعد چھ روزے شوال میں بھی رکھ لیں تو ہمیں پورے سال کا ثواب مل جائے ۔اس واسطے اللہ کے اس فضل و کرم سے ہمیں استفادہ کرنا چاہئے ، اور یہ سنہرا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئے  اور بدعات و رسومات سے بچنا چاہیے
 ماہ شوال کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کا شمار اشہر حج میں ہوتا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : حج کے مقرر مہینے ہیں اس لئے جو شخص ان میں حج لازم کرے وہ اپنے بیوی سے میل ملاپ نہ کرنے ، گناہ کرنے ، اور جھگڑے لڑائی کرنے سے بچتا رہے اور تم جو نیکی کرو گے اس سے اللہ تعالی باخبر ہے ، اور اپنے ساتھ زاد راہ لے لیا کرو سب سے بہترین توشہ اللہ کا ڈر ہے اور اے عقلمدو مجھ سے ڈرتے رہا کرو۔ (البقرۃ:197)حضرت مفتی محمد شفیع صاحب اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ”جاہلیتِ عرب سے لیکر زمانہ اسلام تک یہی مہینہ مقرر رہئے ہیں ،وہ شوال،ذیقعدہ اور دس دن ذی الحجہ کے، جیسا کہ امام بخاری نے اپنی صحیح  میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے  روایت کی ہے کہ اشہر معلومات سے مراد شوال ذی القعد اور عشرہ ذی الحجہ ہے ۔ ( البقرہ:196 ، معارف القرآن ،ص: 483)۔

 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حج کے مہینوں کی ابتدا شوال سے ہوتی ہے ، اور جو شخص اس سے قبل حج کا احرام باندھے گا اس کا احرام حج صحیح نہیں ہوگا ، کیونکہ حج کا یہ احرام اس کے وقت سے پہلے باندھا گیا ہے ، اس طور سے احرام کی حالت میں تو اس سے احتراز لازمی ہے۔ ماہ شوال کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اس ماہ شادی کرنا اور رخصتی کرکے دلہن کو اپنے گھر لانا  مستحب ہے ، اور اس کو شادی بیاہ کے لئے منحوس سمجھنا بالکل غلط اور جاہلیت کے امور میں سے ہے، امام نسائی نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے ، مجھ سے نبی ﷺنے شوال میں نکاح کیا اور شوال میں ہی میری رخصتی ہوئی تو آپ کی بیویوں میں کون سے بیوی رسول اللہ ﷺکے نزدیک مجھ سے زیادہ پیاری ہے ، اور حضرت عائشہ پسند کرتی تھیں کہ عورتوں کی رخصتی شوال میں ہو۔ (سنن النسائی:3249)  صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضى الله عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے مجھ سے شوال میں شادی کی اور میری رخصتی شوال میں ہوئی، اور وہ اپنی عورتوں کی رخصتی شوال میں مستحب قرار دیتی تھیں ۔(صحیح مسلم :1463) اور امام ترمذی اس حدیث پر یعنی وہ اوقات جن میں نکاح کرنا مستحب ہے ،کا باب  باندھا ہے۔

 اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ماہ شوال کے اندر شادی بیاہ ایک  مستحب عمل  ہے ، ہمارے اصحاب نے اس کے استحباب کی صراحت کی ہے ، اور اس کے لئے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے ،لہٰذا حضرت  عائشہ کی  حدیث سے اس باطل عقیدے کی تردید ہوجاتی ہے کہ ماہ شوال میں شادی بیاہ ایک منحوس عمل ہےمگر کتنی افسوس کی بات ہے کہ آج بھی بہت سے مسلمان دور جاہلیت کے اس عقیدہ میں مبتلا ہیں اور اس ماہ میں شادی بیاہ کو برا اور منحوس سمجھتے ہیں ، جو سراسر باطل ہے ، اور رسول اللہ ﷺ نے خود  اس ماہ میں  حضرت عائشہ سے نکاح کرکے اس عقیدہ کے فساد اور بطلان کو واضح کیاہے ، حضرت عائشہ نہ صرف عقیدہ کی تردید کرتی تھیں بلکہ اس میں شادی اور رخصتی کو مستحب قرار دیتی تھیں ، اور چاہتی تھیں ان کے رشتہ دار کی خواتین کی شادی اسی ماہ میں ہو تاکہ اس عقیدہ کا نام و نشان مٹ جائے ، اور لوگوں کو اس کے بطلان کے بارے میں یقین کامل حاصل ہوجائے ۔

    اس ماہ کی  پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ایک سال رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف نہیں کیا اور شوال میں اس کی قضاء کی ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺجب اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو فجر کی نماز پڑھ کر اپنے معتکف میں داخل ہوتے ، چنانچہ آپ نے رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کا ارادہ کیا اور خیمہ لگانے کا حکم دیا چنانچہ خیمہ لگادیا گیا ، پھر حضرت عائشہ نے اپنے لئے خیمہ لگانے کا حکم دیا تو ان کے لئےبھی خیمہ لگا دیا گیا،پھر حضرت حفصہ نے حکم دیا تو ان کے لئے بھی خیمہ لگا دیا گیا ، جب حضرت زینب نے ان دونوں خیموں کو دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے لئے خیمہ لگانے کا حکم دیا ، جب رسول اللہ ﷺنے یہ دیکھا تو فرمایا: کیا انہوں نے خیر کا ارادہ کیا ہے ؟ پھر آپ نے اعتکاف نہیں کیا ، ان کے خیموں کو بھی اکھڑوا دیا اور اس کے بدلے شوال میں دس دن اعتکاف کیا ۔( صحیح ابن ماجہ 1843  باب ما جاء فىمن يبتدىء الاعتكاف وقضاء الاعتكاف)غرض یہ کہ شوّال کا مہینہ بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ یہ مسرت و انبساط کا مژدہ سناتا ہے۔ﷲتعالی ہم سب کو  زندگی  کے قیمتی لمحات کو غنیمت جان کر ان لمحات سے زیادہ سے زیادہ توشہ آخرت تیاد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اور صحیح معنوں میں قرآن وحدیث کی فہم بخشے۔ اٰمین۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad