تازہ ترین

پیر، 22 جون، 2020

ہاں! ہندوستان میں مدارس فقدان تربیت کیشکار ہیں

محمد سرتاج  اٹھارہ سو سنتانوے 1897میں دیمولان نے ایک کتاب کی تصنیف کی،سچ مانیں تو وہ کتاب،کتاب نہیں غرق کر دینے والی پانی کی رو تھی جو پانی پر بہنے والے حشو وزوائد کو بہا لے گئی،ایک آندھی تھی جو ہواؤں میں اڑنے والے خس و خاشاک کو اڑا لے گئی، ایک زور دار طمانچہ تھا جس نے مفاد پرستوں کے ہوش اڑادیے، ایک چیخ تھی جس نے ابنائے سیاست کے حواس باختہ کر دیے، ایک انقلاب تھا! ایسا انقلاب جو جمود کی چادر تانے سورہے لوگوں کو متحرک اور فعال بنا دیا، ایک طوفان تھا جس سے جرمن اور فرانس تھرا اٹھا.

        یہ کتاب منظر عام پر آئی، اور زمین نے بہت جلد اس کی مقبولیت کے ستاروں کو فلک پر درخشاں دیکھا،جس میں اس نے انگریزوں کی ترقی اور دیگر اقوام کی تنزلی و زوال کے علل و اسباب تحریر کئے ہے، اور انگریزی تہذیب و ثقافت کی تمام کڑیاں،جیسے تعلیم،  تربیت، سیاست،  حکومت تجارت، زراعت، صنعت و حرفت اور اخلاق نفسیہ کا جرمن اور فرنچ تہذیب کا تقابلی جائزہ لے کر ثابت کیا کہ معنوی حیثیت سے انگلش قوم،جرمن اور فرنچ اقوام سے زیادہ ترقی یافتہ ہے.
انگلش نظام تعلیم میں تربیتی و فکری پہلؤوں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے،

 اس لئے دیمولان نے فرانسیسیوں کے زوال کا اصلی سبب فقدان تربیت ہی کو ٹھہرایا ہے، جیسا کہ وہ لکھتا ہے اگر تم سو فرینچ فارغ التحصیل طلباء سے یہ سوال کرو کہ آئندہ ان کا کیا مشغلہ ہوگا؟  تو ان میں سے ٪75 یہ جواب دیں گے کہ ہم سرکاری ملازمت کے امید وار ہیں،کیونکہ ان کا غالب حصہ فوج، عدالت، وزارت،کمشنری، مال، سفارت، یا دوسرے محکمہ جات، مثلا  کان کنی، آپ پاشی، جنگلات، تعلیم اور مدارس وغیرہ میں داخل ہونا چاہتا ہے,اور آزاد پیشوں کی طرف ناکام لوگوں کے سوا کوئی رخ نہیں کرتا (سر تقدم الانکلیز)

              مدارس جو ملکوں کی تقدیر سنوارنے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں، تنخواہ داروں کی تربیت گاہ بن گئے ہیں، اور اس کا سہرا نیپولین اول کو جاتا ہے، کیونکہ وہ عام تسلط ونفوذ کے عمارت کی تعمیر(جس کا وہ مشتاق تھا)کی بنیاد اس سوچ پر تھی کہ تنخواہ داروں کا اضافہ کیا جائے، یہی وجہ ہے کہ مذکورہ بالا خیالات وہاں کے طلباء کے ذھن ودماغ میں جاگزیں تھے،  لہذا اس نے اقتدار کا دست بازو بنانے اور اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے چند مصالح کو پیش نظر رکھ کر طلبہ کو علوم حقیقیہ سے نکال کر، پستی،  کم ہمتی اور  ذھنی غلامی کے قالب میں ڈھالنے کا کردار ادا کیا.
اور جب ہم جرمنی کی تعلیمی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو اس میں بھی فساد تربیت کے خدوخال نمایاں ہوتے ہیں، چنانچہ قیصر ولیم شہنشاہ جرمنی اپنی ایک اسپیچ میں تعلیم کے تئیں اپنے اظہار خیالات یوں کرتے ہیں،

"مدارس کا یہ فرض تھا کہ وہ اصل مقصد کی جانب توجہ کرتے! یعنی وہ قوموں میں ایسی تعلیم پھیلاتے جسکی وجہ سے جوانوں میں وہ اوصاف پیدا ہوتے جوحکومت کے فرائض کی انجام دہی میں ممدومعاون ہوں، تاکہ ہم بہت جلد اپنے ملک کی ترقی کا نظارہ کر سکتے "الحاصل دونوں ملکوں نے اپنی حکومت اور اقتدار کی ارتقاء کے لیے طلبہ کا استحصال کیا، دونوں ملکوں کے خیالات واغراض میں مشابہت و مماثلت ہے،جس کی وجہ سے تعلیم نہایت سطحی ہوگئی، نصاب میں کتابوں کی ایک کثیر تعداد ہونے کی وجہ سے طلبہ رٹنے، جلد سمجھنے اور کم وقت میں متعدد فنون کے سیکھنے کے عادی ہو گئے.
کام کرنے کے لئے جوانی کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن جب جوانی،پڑھنے اور سیکھنے میں گزر جائے تو وہ ملک و ملت کی تقدیر کیسے بدل سکتی ہے؟؟ 

اخلاقی روح  مردہ ہو گئی کیونکہ یہ نظام، ڈگری، ملازمت اور ملکی سطح پر پوسٹ پانے کے قابل تو بناتا ہے، لیکن خارجیات کے دائرے میں غور و فکر کو محدود کردیتاہے،  صحت بگڑگئی اور اس کی وجہ صاف ظاہر ہے،ایک قلیل مدت اور محدود وقت میں متعدد موضوع پر قابو پانا،  صحت کے لیے مضر کیونکرثابت نہیں ہوگا؟

 جبکہ انگریزی نظام تربیت  جرمنی اور فرانس کے نظام تربیت سے قدرے مختلف ہے.  وہاں بچوں کو غلام نہیں بنایا جاتا ہے، انتظامیہ بھی انہیں آزاد رہنے کی ترغیب دیتی ہے، طلبہ کی تربیت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، اور چونکہ انگریز سرکاری ملازمت کی طرف بہت کم مائل ہوتے ہیں اسی لیے درسی تعلیم کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی ہے.

بلکہ بقول ڈاکٹر ریڈی
" مدارس کو وہ مصنوعی ظرف نہیں ہونا چاہیے جس میں طلباء صرف کتاب پڑھنے کے عادی ہو جائیں بلکہ ان کو ایک عملی ظرف بننا چاہیے جس میں حتی الامکان طلباء کوحقائق سے روشناس کرایا جائے، تاکہ جب یہ نوجوان عرصہ حیات میں قدم رکھے تو انہیں محسوس نہ ہو کہ کسی نئی دنیا میں آگیا ہوں, اس کی تربیت میں ہمت، ارادہ، چشتی،چالاکی، قوت مردی اور مہارت دستی کو بھی داخل کرلیا جائے" 

واضح رہے کہ انگریزی مدارس کوئی جیل  نہیں جہاں سے صرف اطاعت گزاری اور فرمانبرداری کی آواز سنائی دے!!    

"وہ ایک مکمل گہر ہوتے ہیں"  جس میں گھریلو زندگی کے پورے مناظر، ورزش، کاشتکاری، تجارت، کارخانے،ہاسپٹل، چڑیا گھر، عجائب خانے، گرجے اور کتب خانے،الغرض تہذیب و تمدن کی ہر شاخ  موجودہوتی ہے.
غرضیکہ وہاں کے مدارس ہر طرح کی خصوصیات سے لیس ہوتے ہیں، صحت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ  کوئی ایسا مشکل کام جو صحت کے لئے متاثر ہو بچوں سے نہیں لیا جاتا ہے،یہی وجہ ہے کہ زکام اور سر درد کی بھی جلدی شکایت نہیں ہوتی،  ایسے ہی نظام تربیت میں کام کرنے کی قوت  پروان چڑھتی ہے، مثلا  اپنے ہاتھوں سے کاشتکاری کر نا،درخت لگانا، جہازبنانا، شہد کی مکھیاں پالنا، اپنے ضروریات کی چیزوں کو ازخود بنا لینا،یہ سب ایسی چیزیں ہیں جو انہیں اندر اور باہر سے مضبوط کرتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں تنہا زندگی گزر بسر کر سکتے ہیں.

ہندوستان کے مدارس (مشہور کالجوں،یونیور سیٹیوں اور اسکولوں) کانظام تربیت بھی جرمن اور فرانس سے میل کھاتا اور فساد تربیت کے گڑھے میں سسکیاں لیتا آہیں بھر رہا ہے،  یہاں تربیت؛چستی، چالاکی،جواں مردی، مہارت دستی،آزادی اور ظلم کے خلاف سینہ سپر ہونے کانام نہیں بلکہ ذھنی غلامی، اور چاپلوسی کانام تربیت ہے، یہاں تو اساتذہ  و طلبہ کا استحصال ہوتا نظر آتا ہے، یہاں تو کتابوں کو پڑھنے اور سمجھنے میں عمر شباب ختم ہو جاتی ہے،یہاں توحکومت نے مدارس کو ایک زر خرید غلام بنا رکھاہے،تنخواہ داروں کی تربیت گاہ بنا رکھا ہے، یہاں بھی حرص، لالچ،دھوکہ،تعلیم کی آڑ میں سیاست اور تنگ نظری ہے، آخر یہ ملک کیسے ترقی کر سکے گا؟ آخر اس ملت کی تعمیر کیونکر وجود میں آئے؟

توہی ناداں! چند  کلیوں پر  قناعت  کرگیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگئ داماں بھی ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad