تازہ ترین

بدھ، 29 جولائی، 2020

ہندستانی مسلم خواتین اور ایغور مسلم خواتین

محمد جاوید نئ دہلی۔
مکرمی:مذہبی آزادی کا حق ,زندگی کا حق اور اظہار رائے کا حق ہمارے آئین میں بنیادی حقوق ہیں۔بھارت میں پیدا کوئ بھی شخص پیدائش سے ہی ان حقوق کا استعمال کرتا ہے۔اگرچہ وہ ان حقوق کی اہمیت کبھی محسوس نہیں کرتے کیونکہ وہ  مختلف سچائ کے ساتھ اس کا موازنہ کرنے میں ناکامیاب ہیں۔ایغور مسلمان خواتین کا معاملہ اس کی بڑی مثال ہے۔جو اس قانون کی اہمیت پر روشنی ڈال سکتا ہے۔زندگی,کھانا پینا رہن سہن اور پہناوے کی آزادی کی انسانوں کی بنیادی ضروریات اور خواہشات ہوتی ہیں۔لیکن ایغور مسلمان خواتین کو چینی حکومت کے ذریعہ ایک صدی سے زائد وقت سے ان بنیادی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے۔چینی انتظامیہ کے ذریعہ مہیا تمام سوشل پر پابندی عائد کر دی گئ ہے اور ان کے گواہوں کو مار دیا گیا ہے ۔

پھر بھی کچھ ایغور مسلمان خواتین کچھ سوشل میڈیا چینلوں کو خفیہ طور سے اپنا درد اپنی داستان سوشل میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر لانے میں کامیاب رہیں۔اس سے چینی حکومت کے ذریعہ روزسہے جارہے مظالم کی جھلک پانے میں باہری دنیا کو مدد ملی۔بھارتی مسلمان خواتین اپنی مرضی کے مطابق زندگی جینے اور اظہار رائے کیلئے آزاد ہیں۔ان پر اپنے مطابق میعار زندگی,پہناوا اور تعلیم حاصل کرنے پر کوئ پابندی نہیں ہے۔کچھ ماہ قبل کچھ چینی کمپنیوں نے مسلم خواتین کو برقعہ پہن کر دفترپر آنے پرپابندی عائد کر دی اور اس حکم نامہ کو بہت سختی سے نافذ کیا گیا کہ متعدد خواتین کو اپنا روزگار کھونا پڑا۔اس کے مقابلے میں بھارتی مسلم خواتین دفتر ,مالس,ہوٹلس,سنیما حال وغیرہ سمیت کسی بھی جگہ پر کسی بھی طرح کا لباس پہننے کیلئے آزاد ہیں۔

وہ بغیر کسی پابندی کے اپنی رائےکا اظہارکر سکتی ہیں(جب تک کہ یہ ملک کے تحفظ سے متعلق نہ ہوں)۔
ایغور مسلمان خواتین کو ڈیٹینشن کیمپ میں قید رکھا جاتا ہے اور ان کی جانچ کی جاتی ہیں۔اگرمذکورہ خواتین حاملہ پائ جاتی ہیں تو انہیں حمل گرانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔حاملہ ہونے سے روکنے کیلئے کچھ خواتین کے جسم میں انٹرا یورین ڈیوائس لگائ گئ ہیں۔جس کے نتیجے میں ایغور مسلمان طبقے میں شرح پیدائش گھٹ کر ساٹھ فیصد آگئ ہے۔کچھ حقوق انسانی تنظیموں کے ذریعہ اسے پیدائش سے قبل قتل کے برابر قرار دیا گیا ہے۔اس کے برعکس بھارتی مسلمان خواتین بچوں کو جنم دینے کیلئے آزاد ہیں۔وہ اپنی مرضی کے مطابق بچوں کو گود لے سکتی ہیں۔بھارتی مسلم خواتین اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے بھارتی عدلیہ کا سہارا لے سکتی ہیں۔جو ایغور مسلمانوں کو میسر نہیں ہیں۔انہیں مسلمان مردوں کے برابر حق ملا ہے اور جب انہیں انصاف نہیں ملتا تو وہ بھارت سرکار کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر سکتی ہیں۔

یہ سب ایغور مسلم خواتین کے تصور سے بہت دور ہیں۔وہ کبھی بھی چین کی کمیونسٹ پارٹی کے خلاف آواز نہیں بلند کر سکتی ہیں۔مسلم خواتین کو تعلیم اور روزگار کے مواقع آسانی سے حاصل ہیں۔متعدد بھارتی مسلم خواتین سرکاری کے ساتھ ساتھ ذاتی میدان میں حیرت انگیز روزگار حاصل کیا ہے۔جس سے انہیں ایک عزت کی زندگی کا تحفہ ملا ہے۔وہ نہ صرف اپنے تہوار منانے کیلئے آزاد ہیں بلکہ انہیں غیر مسلم دوستوں کے ذریعہ دیوالی اور ہولی کیلئے بھی مدعو کیا جاتا ہے جو بھائ چارہ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت سرکار کے ذریعہ اپنائے گئے یکساں برتائو کوظاہر کرتا ہے۔یہ سب ایغور مسلم خواتین کیلئے دور کا خواب ہے۔انہیں ناقابل برداشت ایذا سہنے کیلئے مجبور کیا جاتا ہےجسے نسل کشی مانا گیا ہے۔لیکن ان سب کیلئے چینی حکومت کی طرف سے مخالفت کی آواز دبانے کیلئے اجازت ہے۔

یہ نہیں کہا جا سکتا بھارتی سماج تمام طبقے کیلئے بہتر ہے۔اس کی اپنی خامیاں ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی مخصوص طبقے کی خواتین کے تئیں ناانصافی پر مبنی ہے۔بھارت میں خواتین کے خلاف جرائم کا تعلق کسی مخصوص مذہب یا طبقے سے نہیں ہے۔ان جرائم کا سرکار مختلف سطح پر روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ایغور مسلمان خواتین کی قابل رحم حالت چینی سرکار کا اصلی چہرہ دکھاتی ہے اور ان کے نام نہاد ترقیاتی ماڈل کی خامیوں کو اجاگر کرتی ہے۔بھارت سرکار کے ذریعہ مسلمان خواتین پر اٹھائے گئے قدموں پر سوال اٹھانے والے دانشوروں چینی سرکار کے ذریعہ ایغور مسلم خواتین پر کئے جا رہے مظالم پر سوال اٹھانے چاہئیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad