تازہ ترین

جمعرات، 2 جولائی، 2020

استاد کی عظمت کو ترازو میں نہ تولو

از قلم۔اسلامک ریسرچ اسکالر,مفتی محمد ضیائالحق قادری فیض آبادی ماضی قریب میں اپنے اسلاف کرام سے اکثر یہ سنا کرتے تھے۔کہ استاد کی عظمت کو ترازو میں نہ تولو,استاد تو ہر دور میں انمول رہا ہے۔اج کے اس دور پرفتن میں جہان طرح طرح کی برائیاں جنم لے رہی ہیں۔تو وہیں پر ایک برائی جو  بڑی تیزی کے ساتھ ہمارے معاشرے میں پھیل رہی ہے۔
وہ ہے اساتذہ کرام کی بے حرمتی,یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس سے چشم پوشی ہرگز نہیں کی جا سکتی ہے۔جس وقت  کوئی طالب علم اپنے استاد کی بے حرمتی کرتا ہے 

تو اس منظر کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔کہ کہاں چلی گئی استاد کی عزت و تکریم,کہاں چلے گئے وہ شاگرد جو استاد کی ایک آواز پر لبّیک کہہ کر اپنی جان و مال قربان کر دیا کرتے تھے۔صاحب انسان خطا و نسیان کا مرکب ہوتا ہے,استاد بھی ایک انسان ہی ہوتا ہے خطا اس سے بھی ہو سکتی ہے,اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی خطاوں اور کوتاہیوں پر اس کو  یوں ہی سر بازار ذلیل کر کے اس کی عظمتوں و رفعتوں کا جنازہ نکالا جاے۔


افسوس صد افسوس اج ہمارے معاشرے میں اس طرح کے بھی انسان پاے جاتے ہیں۔جو  اپنی اولاد کی صحیح معنوں میں تربیت نہیں کرتے ہیں۔اور اپنے فرائض سے روگردانی کرتے ہوے اس اہم فرائض کو اساتذہ کرام کے سر پر ڈال دیتے ہیں۔ اور جب اساتذہ کرام اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے اس طالب علم کی صحیح معنوں میں تربیت کرنا چاہتے ہیں تو اس  رذیل کو یہ بات ناگوار گزرتی ہے اور وہ اپنے استاد کو ذلیل کرنے میں اپنی پوری کوشش صرف کر دیتا ہیاور  بات اس مقام تک آپہونچتی ہیکہ طالب علم اپنے اس استاد کو جسے روحانی باپ کہا جاتا ہے۔

اس سے دست و گریباں ہو جاتا ہے اور اپنے اس روحانی باپ کو بڑی بے رحمی سے مار کر زخمی کر دیتا ہے وہ کمزور  استاد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے بے ہوش  ہو جاتا ہے اور وہ  اپنی تباہی کا ماتم کرتا  ہے۔اس طرح کے واقعات بہت ہی زیادہ رونما ہو چکے ہیں۔اللہ پاک ہمیں اپنے اساتذہ کرام کی عزت کرنے اور ان کی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کی توفیق عطاء فرمائے امین یا رب العالمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad