تازہ ترین

جمعہ، 14 اگست، 2020

تحریک آزادی میں اکابر علماء کی قربانیاں

(دوسری قسط)
ازقلم------------انعام الرحمن اعظمی خادم دارالعلوم تحفیظ القرآن سکھٹی مبارک پور
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے مختصر تعارف پر پہلی قسط کی تکمیل ہوئی تھی اب اس سلسلے کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے تحریک آزادی کے دیگر مجاہدین کا بھی تذکرہ کرتا چلوں،جیسا کہ پہلے ہی اس بات کا ذکر کیا جاچکا ہے کہ تحریک آزادی کی  داستان طویل ہے جس کو بیان کرنے کے لئے ایک طویل وقت درکار ہےاب اس قسط میں جنگ پلاسی، جنگ میسور، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ کے فتوے جہاد اور سلطان ٹیپو کے مجاہدانہ کردار کا بطور خاص تذکرہ کرنے کی کوشش کرونگا،لیکن اس پہلے کے حالات کا بھی مختصر ذکر کرتا چلوں کہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ کے فتوے جہاد سے پہلے سراج الدولہ نے جنگ پلاسی کا میدان بھی سنبھالا-جنگ پلاسی کا مختصر تعارف یہ ہے کہ 23/جون 1757ء ہماری تاریخ کا عہد ساز دن ہے جب برصغیر ہندوپاک کے مسلمانوں کی غلامی کے دور کا آغاز ہوا، یہ جنگ صرف 9/گھنٹہ جاری رہی اور اس جنگ میں شکست کا نتیجہ یہ ہوا کہ برصغیر کے مسلمانوں کی غلامی دو صدیوں تک جاری رہی،جنگ پلاسی شروع ہونے سے کچھ روز قبل (میر مدن) نے نواب سراج الدولہ کو مشورہ دیا کہ انگریزوں سے نمٹنے سے پہلے وہ میر جعفر اور اس جیسے دوسرے سازش کاروں اور غداروں کو ٹھکانے لگا دیں، لیکن نواب سراج الدولہ نے ایسا نہیں کیا،اور اس نے آستین کے سانپوں کو پہچاننے میں غلطی کی جس کا خمیازہ نواب سراج الدولہ کو میدان کارزار بھگتنا پڑا،چرب زبان میر جعفر نے نواب سراج الدولہ کو قرآن پر ہاتھ رکھ کر اپنی وفاداری کا یقین دلایا اور اسے مطمئن کردیا، آخر کار جب جنگ کی شروعات ہوئی تو کچھ گھنٹہ بعد بارش اور آندھی طوفان نے اس قدر تباہی مچائی کہ نواب سراج الدولہ کی گرجتی 53/توپیں خاموش ہوگئیں کیوں کہ سامان حرب کو بچانے کا کوئی انتظام نہیں تھا اور جنگ کے کچھ گھنٹہ بعد جنگ کا نقشہ بدلتا دیکھ کر اس کے سپہ سالار میر جعفر جس نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر حلف لیا تھا اس کو وہ حلف یاد نہ رہا اور اس نے نواب سراج الدولہ کو پسپائی کا مشورہ دیا اور نواب سراج الدولہ نے اس کو فوراً قبول کرلیا، سراج الدولہ کی طرح انگریزی فوج کا بھی سامان حرب کام کا نہ رہا لیکن انہوں نے اس کو کسی طرح استعمال کے قابل بنایا، کیوں کہ انگریزی فوج کی تعداد کافی تھی اور نواب سراج الدولہ کی پسپائی کی غیر متوقع خوش خبری سنتے ہی انگریزی فوج جو خود کو شکست خوردہ سمجھ چکی تھی لیکن میر جعفر کی غداری کی وجہ سے نواب سراج الدولہ کی فوج پر دوبارہ چڑھائی کردی اور 23/جون 1757ء کو سہ پہر تقریباً 5/بجے جنگ کا فیصلہ ہوگیا-اس کے بعد نواب سراج الدولہ کی انتہائی بھیانک طریقے سے مسخ شدہ لاش کی مرشدا بآد میں نمائش کرائی گئی اور 6/دن بعد 29/جون 1757ء کو میر جعفر بنگال اور اڑیسہ کا (نواب ناظم) کی حیثیت سے تخت نشین پر بیٹھا، اس طرح میر جعفر کی غداری کی وجہ ہندوستان کی تاریخ کے ایک سیاہ باب کا آغاز ہوگیا،اب اس جنگ کے بعد میسور کی جنگ کا آغاز ہوا جو 1181ھ مطابق 1767ء میں شروع ہوئی اور حیدر علی اور  سلطان ٹیپو کی جیت پر ختم ہوئی جب کہ انگریزوں کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا، جب انگریزوں کو شکست ہوئی تو انہوں نے کمال ہوشیاری سے حیدر علی سے صلح کی درخواست کی حیدر علی سیاسی مصلحتوں کی خاطر چند شرائط پر صلح کا معاہدہ کرلیا اور اس جنگ کا 1183ھ مطابق 1769ء میں خاتمہ ہوا-

(شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ کا فتوے جہاد اور سلطان ٹیپو) 
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے انتقال کے بعد شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ 1762ء میں اپنے باپ کی مسند پر بیٹھ کر حدیث کا درس دینا شروع کیا، 1762ء میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ نے دیکھا کہ انگریز کا بڑے بڑے علاقوں پر تسلط ہوگیا ہے تو انہوں نے 1772ء میں سب سے پہلے ہندوستان کی تاریخ میں انگریزی حکومت کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا وہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ ہیں1772ء میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ کے فتوے جہاد کی بنیاد پر سلطان ٹیپو رحمہ اللہ نے لشکروں کو ترتیب دینے کا کام شروع کیا اور پے درپے کئی لڑائیاں ہوئیں اسی سلسلے میں میسور کی دوسری جنگ 1780ء میں شروع اور 1784ء تک جاری رہی اس جنگ معاملہ مساویانہ رہا اور آخر میں چند شرائط طے ہوئی اسی درمیان 1782ء میں حیدر علی کا انتقال ہوگیا اور اس کی قائم مقامی ان کے جانباز بیٹے سلطان ٹیپو نے کی، اسی طرح میسور کی تیسری جنگ 1205ھ مطابق 1790ء میں انگریزوں اور میسور کی سلطنت خداداد کے والی سلطان ٹیپو کے درمیان زبردست معرکہ ہوا اس مرتبہ بھی نظام حیدرآباد اور مرہٹوں کی فوجیں انگریزوں کے ساتھ تھیں، تقریباً دوسال تک جنگ جاری رہی بالآخر صلح ہوئی مگر اس مرتبہ سلطان ٹیپو کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ بہت سا سامان حرب اور نقدی ساز و سامان دینا پڑا اور میسور کی آدھی سلطنت جاتی رہی جس سے سلطان ٹیپو کی پریشانی میں اضافہ ہوا،بالآخر معرکہ حق و باطل کا فیصلہ کن دن 4/مئی 1799ء کا دن آہی گیا، لیکن انگریز بڑی شاطر قوم تھی اس نے سوچا کہ سلطان کے حملے کو اس طرح ختم نہیں کرسکتے اس نے سلطان ٹیپو کے سپہ سالار میر صادق کو نوسو مربع زمین کی لالچ دے کر خرید لیا پھر کیا ہوا سراج الدولہ کی طرح سلطان ٹیپو کے سپہ سالار نے بھی غداری کرکے سلطان ٹیپو رحمہ اللہ کو شہید کروا دیا تن تنہا میسور کا مجاہد شہید ہوگیا،وہ مجاہد جس نے کہا گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے،

اب ہندوستان کی تحریک آزادی میں جہاں ایک اور غدار کا اضافہ ہوا وہیں وطن عزیز کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں میں ایک اور شہید کا اضافہ ہوگیا، لیکن آج ہمارے نصاب تعلیم میں سلطان ٹیپو کے مکمل حالات کو نہیں پڑھایا جاتا،سلطان ٹیپو رحمہ اللہ کی جو تصویر کتابوں میں دیکھائی گئی ہے وہ سلطان ٹیپو کی تصویر نہیں ہے کیونکہ حضرت مولانا حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ اپنے مکتوبات میں سلطان ٹیپو رحمہ اللہ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ سلطان ٹیپو نے کبھی اپنے چہرے پر استرا نہیں لگوایا، مزید آگے لکھتے ہیں کہ سلطان ٹیپو اپنے دور کا قطب تھا، سلطان ٹیپو تہجد گزار تھا، سلطان ٹیپو شب زندہ دار تھا، سلطان ٹیپو کے وہ خطوط اٹھا کر دیکھو جو انہوں نے سید احمد شہید کو لکھے، سلطان ٹیپوخطوط میں لکھتے ہیں کہ میں انگریز کو ختم کرکے برصغیر پر اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتا ہوں، اسلامی حکومت کا فلسفہ سب سے پہلے سلطان ٹیپو نے برصغیر میں قائم کیا،  اس کے بعد بھی کچھ لوگ سلطان ٹیپو کو وطن کا غدار کہتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad