تازہ ترین

منگل، 20 اکتوبر، 2020

جونپور۔ سید علی داؤد کی مزار سے غیر مسلموں کی عقیدت

جونپور۔رپورٹ اجود قاسمی ۔(یو این اے نیوز 20اکتوبر 2020)شیراز ہند جونپور کی سر زمین پر بے شمار علماء و صوفیاء مدفون ہیں جنہوں نے مدت دراز تک اہل جونپور کو فیض پہنچایا اور جن کا شہرہ دور۔دور تک تھا ان میں سے بیشتر کا بادشاہ وقت بھی مرید ہوا کرتا تھا انہیں میں سے ایک نام ہے سید علی داؤد کا سید علی داؤد کو سلطان محمود شاہ شرقی جونپوری نے مکہ مکرمہ سے مع اہل وعیال کے جونپور لایا تھا سید علی داؤد عربی النسل تھے اور محمود شاہ شرقی کی بیگم بی بی راجے آپ سے بیعت بھی تھی آپ تمام علوم ظاہری و باطنی اور صدری و معنوی کے سرچشمہ تھے اور فقر میں عالی درجہ رکھتے تھے۔

سید علی داؤد کی مزار


محمود شاہ شرقی اور راجے بی بی کو آپ سے بے پناہ عقیدت و محبت ہو گئی تھی آپ ہی کی خواہش پر ایک سنگین مسجد "نماز گاہ" کے نام سے محمود شاہ شرقی کی بیگم بی بی راجے نے اپنے محل سرا سے متصل 1450ء میں تعمیر کرائی تھی مسجد سے متصل اتر دکھن خانقاہ و مدرسے کی عمارت بھی موجود تھی جس کو بعد میں سکندر لودی نے حملے کے وقت مسمار کرا دیا تھا اور اس محلہ کا نام بی بی راجے کے محل سرا کے سرخ دروازے کی وجہ سے محلہ لعل دروازہ پڑا اور مدت دراز کے بعد یہ مسجد بھی محلہ کے نام پر مسجد لال دروازہ عوام میں مشہور ہو گئی۔


سید علی داؤد کا سلسلہ نسب سید حسین اصغر ابن امام سید زین العابدین پر ختم ہوتا ہے سید علی داؤد مرد بزرگ،حق شناس اور مخدوم وقت تھے اور انہوں نے بلا تفریق مذہب و ملت اہل جونپور کی خدمت کی اور فیض پہنچایا ان کے دو صاحبزادے تھے اور دونوں صاحبزادے امام وقت اور علومِ ظاہر و باطن میں اپنی مثال آپ رکھتے تھے دونوں حضرات آپ کے بیحد فرمانبردار اور بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔


مورخین لکھتے ہیں کہ سید علی داؤد کو محمود شاہ شرقی نے معافیات و جاگیرات دینا چاہا لیکن آپ نے بر بنائے آبروئے فقیر قبول نہ فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ 12 اشرفیاں جو تمہارے پاس محنت و مشقت کی کمائی ہوئی ہیں اسے مجھے دے دو بادشاہ نے وہ 12 اشرفیاں سید علی داؤد کو عنایت کر دیں اسی 12 اشرفی سے انہوں نے لال دروازہ سے پورب 3۔4 کلومیٹر کے فاصلہ پر اور جامع مسجد جونپور کے اتر میں بارہ بیگہ زمین خرید کر اپنے نام سے سید علی پور ایک موضع آباد کیا



 اور وہیں سکونت اختیار کی اور ایک خانقاہ بھی تعمیر کرائی خانقاہ کا نام و نشان تو باقی نہیں ہے البتہ موضع آج بھی ان کے نام سے موسوم ہے جو کثرتِ استعمال کی وجہ سے عوام میں سدلی پور کے نام سے مشہور ہو گیا ہے اس وقت تمام آراضیات موریاں برادری کے قبضہ و تصرف میں ہے۔


ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے مقامی نریندر کمار موریا نے بتایا کہ پہلے اس مزار کی بہت ساری خوبیاں تھیں لوگ مزار کی چہار دیواری دن میں تعمیر کرتے تھے اور رات میں از خود چہار دیواری گر جاتی تھی خواب میں دکھایا گیا کہ چہار دیواری کے اندر نہیں رہیں گے اس کے بعد لوگوں نے چہار دیواری تعمیر کرنا بند کر دیا،شادی کے وقت دولہا۔دلہن یہاں پر آکر منتیں مانگتے ہیں،اور جمعرات کو ہم لوگ مزار پر چراغ روشن کردیتے ہیں۔

نریندر کمار موریا


مقامی بھانا دیوی نے بتایا کہ چادر پوشی کرنا، چراغ روشن کرنا،خدمت کرنا سب کرتی ہوں بابا ہم لوگوں کا بہت خیال رکھتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس کچھ نہیں تھا بابا کی وجہ سے ہی ہمارا گھر تعمیر ہوا ہے۔

بھانا دیوی


موجودہ وقت میں مزار کی حالت خستہ ہے،صاف۔صفائی کا اہتمام نہیں کیا جا رہا ہے مزار کے قریب سے ہی ایک گندی نالی بہہ رہی ہے،مزار کی چہار دیواری نہ ہونے کی وجہ سے بے حرمتی ہو رہی ہے مسلمانانِ جونپور اس کی جانب سے بے زار ہیں خیال نہ کرنے کی وجہ سے جونپور کی ایک عظیم تاریخ مٹتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad