تازہ ترین

جمعہ، 16 ستمبر، 2022

اگر صرف معافی مانگنا ہی رشتہ ٹوٹنے سے بچ سکتا ہے تو آپ کو معافی مانگ لینی چاہیے۔

 روہتک کا افسوسناک واقعہ

رادھیکا اور نوین کو آج طلاق کے کاغذات مل گئے۔ دونوں ایک ساتھ عدالت سے نکل گئے۔ دونوں کے گھر والے ان کے ساتھ تھے۔ جیت اور سکون کے نشان ان کے چہروں پر صاف نظر آرہے تھے۔ چار سال کی طویل جنگ کے بعد آج فیصلہ کیا گیا۔ان کی شادی کو دس سال ہوچکے تھے لیکن وہ صرف چھ سال تک ساتھ رہ سکے۔طلاق کی کارروائی میں چار سال لگے۔رادھیکا کے ہاتھ میں جہیز کے سامان کی فہرست تھی جو ابھی نوین کے گھر سے لینی تھی اور نوین کے پاس رادھیکا سے لیے جانے والے زیورات کی فہرست تھی۔



اس کے ساتھ ہی عدالت کا یہ حکم بھی تھا کہ نوین رادھیکا کو دس لاکھ روپے کی یک مشت رقم ادا کرے گا۔رادھیکا اور نوین دونوں ایک ہی ٹیمپو میں بیٹھے نوین کے گھر پہنچے۔ رادھیکا کو جہیز میں دی گئی اشیاء پر نشان لگانا تھا۔چنانچہ وہ چار سال بعد اپنے سسرال جا رہی تھی۔ آخری بار بس اس کے بعد کبھی وہاں نہیں آنی تھی۔گھر کے تمام افراد اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔ صرف تین لوگ   رہ گئے تھے۔نوین، رادھیکا اور رادھیکا کی ماں۔


نوین گھر میں اکیلا رہتا تھا۔ ماں باپ اور بھائی اب بھی گاؤں میں رہتے ہیں۔رادھیکا اور نوین کا اکلوتا بیٹا، جس کی عمر محض سات سال ہے، عدالت کے فیصلے کے مطابق،وہ بالغ ہونے تک رادھیکا کے ساتھ رہے گا۔ نوین مہینے میں ایک بار اس سے مل سکتا ہے۔گھر میں داخل ہوتے ہی پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔ رادھیکا نے اسے کتنی محنت سے سجایا تھا۔ ایک ایک چیز میں اسکی جان بسی تھی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے سب کچھ بنا تھا، ایک ایک اینٹ سےدھیرے دھیرے تعمیر ہوتے دیکھا تھا۔یہ اس کے خوابوں کا گھر تھا۔ کتنے جوش کے ساتھ نوین نے اسکے خواب پورا کیا تھا۔


نوین تھک ہارا سا صوفے پر بیٹھ گیا۔ کہا جو چاہو لے لو میں تمہیں نہیں روکوں گا رادھیکا نے اب غور سے نوین کی طرف دیکھا۔ چار سالوں میں کتنا بدل گیا ہے۔ بالوں میں  سفیدی جھاکنے لگی ہیں۔ جسم پہلے سے آدھا رہ گیا ہے۔ چار سال میں چہرے کی رونق ختم ہو گئی۔وہ اسٹور روم کی طرف بڑھی جہاں اس کا زیادہ تر جہیز پڑا تھا۔ سامان پرانے فیشن کا تھا، اس لیے انہیں کباڑ کی طرح سٹور روم میں رکھ دیا گیا تھا۔ اسے ملا ہی کتنا تھا جہیز؟ کیونکہ دونوں کی محبت کی شادی تھی۔ گھر والے مجبوری میں ساتھ دئیے تھے۔یہ محبت کی شادی تھی تبھی نا کسی کی نظر لگ گئی، کیونکہ ہر کوئی عاشق جوڑے کو ٹوٹتے دیکھنا چاہتا ہے۔


نوین صرف ایک بار پی کر بہک گیا تھا۔ وہ ایک بار ہاتھ اٹھا بیٹھا تھا اسپر۔ وہ غصے میں گھر چلی گئی۔پھر چلاتھا لگانے بجھانے کا دور۔ یہاں نوین کی بھابھی اور وہاں رادھیکا کی ماں۔ نوبت عدالت تک پہنچی اور طلاق لے لی۔نہ رادھیکا لوٹی اور نہ ہی نوین لینے گیا۔رادھیکا کی ماں نے کہا تمہارا سامان کہاں ہے یہاں نظر نہیں آرہا اس شرابی نے بیچ دیا ہوگا؟


"شٹ اپ ماں"

رادھیکا کو ناجانے کیوں نوین کو اسکے منہ پر شرابی کہنا اچھا نہیں لگا۔پھر سٹور روم میں پڑا سامان فہرست میں ایک ایک کر کے ملایا گیا۔

باقی کمروں سے بھی لسٹ میں لکھا سامان اٹھا لیا گیا۔رادھیکا نے بس اپنا سامان لیا اور نوین کے سامان کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ پھر رادھیکا نے نوین کو زیورات سے بھرا ایک بیگ دیا۔نوین نے بیگ رادھیکا کو واپس کر دیا، "اسے رکھو،مجھے نہیں چاہئے،یہ مصیبت میں تمہارے کام آئےگا۔"


زیورات کی قیمت 15 لاکھ سے کم نہیں تھی۔

"کیوں؟

کتنی بار عدالت میں آپ کے وکیل نے کتنی دفعہ زیورات زیورات کا شور مچا رہےتھے؟""عدالت میں عدالتی کیس ختم ہو چکا ہے رادھیکا۔ وہاں میں بھی دنیا کا بدترین جانور اور شرابی ثابت ہوا ہوں۔"یہ سن کر رادھیکا کی ماں نے ناک بھوں چڑھالی۔


"نہیں چاہئے

وہ دس لاکھ بھی نہیں چاہئے۔

 "کیوں؟" یہ کہہ کر نوین صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا۔

"بس یوں ہی" رادھیکا نے منہ موڑ لیا۔

"اتنی بڑی زندگی پڑی ہے، کیسے کاٹو گی؟ یہ لے لو،،، کام آئے گا۔"


یہ کہہ کر نوین بھی منہ موڑ کر دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ شاید اس کی آنکھوں میں کچھ امڈا ہوگا، جسے چھپانے کے لیے وہاں ہٹ گیا۔رادھیکا کی ماں کار ڈرائیور کو بلانے میں مصروف تھی۔رادھیکا کو موقع ملا۔ وہ نوین کے پیچھے اس کمرے میں چلی گئی۔وہ رو رہا تھا۔ عجیب سا چہرہ بناکر۔ جیسے سیلاب کو اندر سے دبانے کی کوشش کر رہا ہو۔ رادھیکا نے اسے کبھی روتے نہیں دیکھا تھا۔ آج پہلی بار دیکھا، نہ جانے کیوں دل کو کچھ سکون سا ملا۔


لیکن زیادہ جذباتی نہیں ہوئی۔سادہ انداز میں کہا کہ اتنی فکر تھی تو پھر طلاق کیوں دی؟"میں نے تمہیں طلاق نہیں بلکہ تم نے دیا""تم نے بھی تو دستخط کئے""کیا تم معافی نہیں مانگ سکتے تھے؟""تمہارے گھر والوں نے کب موقع دیا۔ جب بھی فون کیا، فون کاٹ دیا۔""گھر بھی آ سکتے تھے""ہمت نہیں ہوئی؟"رادھیکا کی ماں آئی ہے۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر لے گئی۔ "اب کیوں منہ لگ رہی ہو اب رشتہ ختم ہو گیا ہے"


ماں بیٹی باہر برآمدے میں صوفے پر بیٹھ کر گاڑی کا انتظار کرنے لگی۔رادھیکا کے اندر بھی کچھ ٹوٹ رہا تھا۔دل بیٹھا جا رہا تھا۔ وہ بے حس ہوتی جا مرہی تھی۔ اس نے غور سے اس صوفے کی طرف دیکھا جس پر وہ بیٹھی تھی۔ کیسے کیسے بچت کرکے اس نے اور نوین نے وہ صوفہ خریداتھا۔پورے شہر میں گھومی تب یہ پسند آیا۔"

 

پھر اس کی نظر سامنے سوکھے تلسی کے پودے پر گئی۔ کتنی شدت سے اسکی دیکھ بھال کیا کرتی تھی۔؟ اسکے ساتھ تلسی بھی اس کے ساتھ گھر چھوڑ کر نکل گئی۔گھبراہٹ بڑھی تو وہ دوبارہ اٹھ کر اندر چلی گئی۔ ماں نے پیچھے سے پکارا لیکن اس نے نظر انداز کر دیا۔ نوین بیڈ پر اوندھے منہ لیٹا تھا۔ ایک بار اسے اس پر ترس آگیا۔ لیکن وہ جانتی تھی کہ اب سب کچھ ختم ہو چکا ہے اس لیے اسے جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔


اس نے سرسری نظروں سے کمرے کی طرف دیکھا۔ پورا کمرہ بے بسی کاحال بیان کررہاتھا۔ کہیں کہیں مکڑی کے جالے بھی لٹک رہے تھے۔اسے مکڑی کے جالوں سے کتنی نفرت تھی۔پھر اس نے ان تصاویر کو دیکھا جس میں وہ مسکرا رہی تھی اور نوین کو گلے لگا رہی تھی۔کتنے سنہری دن تھے۔اتنے میں ماں پھر آئی۔ اس کا ہاتھ دوبارہ پکڑ کر اسے باہر لے گئی۔گاڑی باہر آ چکی تھی۔ گاڑی میں سامان رکھا جا رہا تھا۔ رادھیکا سم گم سی بیٹھی تھی۔ کار کی آواز سن کر نوین باہر نکل آیا۔


اچانک کان پکڑ کر نوین گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔بولا- مت جاؤ،،، مجھے معاف کردو"شاید یہ وہ الفاظ تھے جنہیں سننے کے لئیے چار سال سے ترس رہی تھی۔ صبر کے سارے بند ایک دم ٹوٹ گئے۔ رادھیکا نے عدالت کے فیصلے کا کاغذ نکال کر پھاڑ دیا۔اور ماں کے کچھ کہنے سے پہلے ہی نوین سے لپٹ گئی۔ ایک ساتھ دونوں بری طرح رو رہے تھے۔دور کھڑی رادھیکا کی ماں نے یہ بات سمجھی۔عدالتی حکم دلوں کے سامنے کاغذ سے زیادہ کچھ نہیں۔کاش انہیں پہلے ملنے دیا ہوتا؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad