تازہ ترین

جمعرات، 16 نومبر، 2017

بھگوائی دہشتگردوںکامسلسل تانڈو: اب خموشی جرم ہے


بھگوائی دہشتگردوںکامسلسل تانڈو: اب خموشی جرم ہے

تحریر،سمیع اللہ خان جنرل سکریٹری: کاروانِ امن و انصاف

عمر خان کا بہیمانہ قتل اور یتیم بچے کی ولادت: 
ایک عرصے سے ملک کی فضا کو سنگھی رنگ میں رنگنے اور نفرت کی فضاء پھیلانے کے لیے ہندوتوا کے علمبرداروں نے گئو رکشا کے نام پر معصوموں کو قتل کرنا شروع کیا ہے، یہ سلسلہ اخلاق سے بلند ہوا، اور سر بلند ہوتا جارہاہے، عیدالفطر کے موقع پر جنید کو قتل کیا گیا اور عیدالاضحیٰ کے موقع پر آسام کے محسن کو قتل کیا گیا تھا، مسلم سماج پر قتل و غارت کی یہ منظم وارداتیں ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا حصہ ہیں، اس کے پیچھے کون سے نظریات کام کررہےہیں؟ اور کیوں؟ یہ سب طشت از بام ہےہندو اور ہندوازم کے نام پر ملک کی عوام کو مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف اکٹھا کیا جارہاہے، درآں حالیکہ اس ہندوازم کی کوئی حقیقت نہیں ہے جن لوگوں کو ہندوتوا کے عنوان پر جمع کرکے مسلمانوں، دلتوں اور اقلیتوں سے لڑوایا جارہاہے وہ بیچارے خود ہندو نہیں ہیں، اور نا ہی اس جھوٹے ہندوتوا سے کبھی ان کے آبا و اجداد کا کوئی تعلق رہاہے، درحقیقت متشدد اورطبقاتی نظام کے وہ علمبردار جنہوں نے نتھو رام گوڈسے(مہاتما گاندھی کا قاتل) جیسے لوگوں کو تیار کیا اور آج اس کا مندر تک بنوا رہے ہیں، اور اب یہ گوڈسے وادی ذہنیت بے قابو ہورہی ہے جو کبھی نریندر دابھولکر، گووند پانسرے، کلبرگی اور گوری لنکیش جیسے سچ اور سچ کے لیے لڑنے والوں کو موت کی نیند سلادیتی ہے تو، کبھی، گائے ماتا کے نام پر ملک بھر میں لوگوں کو چن چن کرنشانہ بناتی ہے، رویش کمار، نکھل واگلے، رعنا ایوب اور رام پنیانی جیسے لوگ اس ذہنیت کا ٹارگٹ ہوتے ہیں، اس ذہنیت اور اس کے خطرناک عزائم سے سب واقف ہوچکےہیں، لیکن اقدام کوئی کرنا نہیں چاہتا کب تک لاگ، لپیٹ کی فضا میں اپنا حق مانگا جائے گا، جبکہ وہ زمانے لد چکے ہیں جب معصوم کے آنسوؤوں کی فریادیں ہی اثرانگیز ہوا کرتی تھی، اب تو ستم رسیدہ سے حق فریاد بھی چھیننے کی سازشیں ہیں،اس کا تازہ ترین ثبوت راجستھان کا دلدوز سانحہ ہے، جسمیں ظالموں نے انسانیت کی ساری حدیں پار کرتے ہوئے، جانوروں کی نقل و حمل کررہے چند افراد کو نشانہ بنایا اور عمر خان نامی شخص کو قتل کرڈالا، اور اسی پر بس نہیں کیا بلکہ اس کے اعضاء کو بھی کاٹ کر اپنی دردندگی کا ثبوت دیا ہے ایک طرف قتل کی یہ سنگین واردات ہوئی تو دوسری جانب مقتول کی بیوہ نے ایک بچے کو کل رات جنم دیا ہے، عمر خان جسے قتل کیا گیا ہے، اس کی لاچار ماں اور آٹھ یتیم بچوں کو ذرا جاکر دیکھیے، یہ نومولود آخر ایک دن بڑا ہوگا اور جب اپنے باپ کے اس انجام سے واقف ہوگا، تو اس کی ذہنیت کا کیا رُخ ہوگا؟ باپ کی شفقت اور اس کی تربیت سے یہ بچہ محروم رہے گا، ساتھی بچوں کو اپنے باپوں کی شفقت آمیز چھاؤں میں پائے گا، تو اس کا معصوم دل کیا یہ سوال نہیں کرے گا کہ تو کس جرم میں ان شفقتوں سے محروم کردیا گیاہے؟ سچ پوچھیے تو بے لاگ لپیٹ، حقیقت یہ ہیکہ یہ بچہ اس وقت انسانوں کو ان کی بربریت کا آئینہ دکھا رہا ہے، سیکولر بھارت کے بدترین چہرے کو کرید رہا ہے، اس بچے کا وجود اور اس کی لرزه خیز مسکان ہم سے کچھ کہتی ہے، کچھ پوچھتی ہے، اس کو سمجھنے کے لیے بس ضرورت ایک عدد دلِ دردمند کی ہے، جو سب کے لیے دھڑکتا ہو، جو اپنے آشیانے اپنے لوگوں پر نچھاور کرتا ہو، وگرنہ رسمی تسلیاں تو آج مودی جی بھی دیتے ہیں!اس واردات میں ایک بار پھر پولیس کا مکروہ و متعصب چہرہ سامنے آرہاہے، پولیس اس واقعے کو بھی سنگھی ذہنیت سے الگ رخ دینا چاہتی ہے، جس کا ایک ہی مقصد ہے کہ: آر ایس ایس کے گُرگے، اور متشدد سنگھی ذہنیت کے علمبردار ناراض نا ہوجائیں! ایک طرف حکومت و پولیس انتظامیہ کا مظلوم خاندان کے ساتھ یہ سنگدلانہ رویہ ہے، تو دوسری طرف مظلوم قوم کی نمائندہ جماعتوں کا خاموش رول پھر سے اپنی قومی شان بگھار رہا ہے، یقینًا قومی قیادت پر میری یہ تنقید قوم کے بعض افراد برداشت نہیں کرپائیں گے، کیوں؟ یہ سب جانتےہیں لیکن، ان لوگوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ گائے ماتا کے تحفظ کے عنوان سے ہجومی تشدد (Mob Lynching) کے ذریعے ملک بھر میں ایک ایک کرکے قوم کے سینکڑوں آشیانے اجڑ چکے ہیں، اور وقفے وقفے سے یہ تشدد جاری ہی ہے، جس کا مقصد قوم کو بزدل بنانا اور ان کو ہراساں کرنا ہے، اب تک دہشتگردی کے نام پر گرفتاریاں ہوتی تھیں، لیکن اب جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے وہ ناقابل برداشت ہے، کسی بھی کمیونٹی کے فرد کو کھلم کھلا گھیر کر قتل کرنا،اور بار بار کرنا اس قوم کے اجتماعی وقر کی دھجیاں اڑانے سے بھی بدترین ہے، چہ جائیکہ ایک قوم ایسی سینکڑوں واردات برداشت کرکے اپنی رسوائی کا مستقل منظر پیش کیا جائے اور لمحوں کی جذباتیت کے مناظر سے اقوام عالم میں اپنی کھوکھلی طاقت اور بے وقوفی کے ثبوت تو پیش کریں، لیکن ایسی واردات کو روکنے کے لیے اور قوم کا احساس عدم تحفظ ختم کرنے کے لیے کوئی عملی اقدام نا کرے ۔
میری گذارش ہیکہ، 
سنگھی دہشتگردوں کے ان حملوں کو اس زاویے سے بھی دیکھیں اور ان پر یا تو خود عملی اقدامات کریں، یا تو پھر قوم کے نوجوانوں کو چھوٹ دی جائے کہ اب ان دہشتگردوں کو وہ سبق سکھائیں، انہیں سبق سکھانا صرف قومی کاز کے لیے ہی نہیں بلکہ ملکی سلامتی کے لیے بھی ناگزیر ہے، کیونکہ گئورکشکوں کی یہ کارروائیاں ملک میں لاقانونیت کو فروغ دیتی ہیں اور آئین ہند و ملکی جمہوریت کو سرعام ذلیل بھی کرتی ہیں، اس لیے اب ان کے خلاف اقدامات ملکی کاز کے پیش نظر بھی ضروری ہوچکےہیں ۔آج عمر خان کی شہادت اور اس کے معًا بعد اس کے یتیم بچے کی ولادت قومی ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہے، اب خاموشی مردہ دلی پر مہر لگائے گی ، ہماري مجموعی قیادتوں کو چاہیے کہ ان معاملات کا سخت نوٹس لیں اور قبل اس کے کہ کوئی لاوا پھٹ پڑے آگے بڑھ کر قوم کو سہارا دیں کیونکہ:
حل ہوئے ہیں مسئلے شبنم مزاجی سے مگر /،/گتھیاں ایسی بھی ہیں کچھ، جن کو سلجھاتی ہے آگ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad