تازہ ترین

جمعہ، 14 اگست، 2020

بابری مسجد کی شہادت سے حیدرآباد کی پانچ مساجد تک

سرفرازاحمد القاسمی حیدرآباد
5اگست کوکھلے عام ملک کی جمہوریت کاجنازہ اوراسکی تدفین کردی گئی،اوریہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ اب جمہوریت نام کی چڑیا کااب بھارت میں کوئی وجود نہیں رہ گیاہے،اور یہ کہ اب آنیوالے دنوں میں اس متعصب،سنگھی اورفرقہ پرست حکومت  کاہرقدم "ہندوراشٹر"کی جانب ہوگا،سوال یہ ہے کہ کیا بھارت ہندو راشٹر کے اس بھاری بھرکم بوجھ کو اٹھانے کیلئے تیارہے؟پڑوس کاایک چھوٹا ساملک "نیپال"جواس بوجھ کو زیادہ دنوں تک اپنے سر پرنہ رکھ سکا اوربلآخر اس نے اس بوجھ کواتار پھیکا،کیابھارت اسکا متحمل ہوگا؟یہ تو آنے والا وقت بتائیگا،اس ملک کیحالات آگے کیاہوں گے اور یہ کس رخ پر چلیگا یہ آنے والاوقت طے کریگا،لیکن اتنی بات ضرور  ہے کہ ابھی ملک کی باگ ڈور،جن لوگوں کیہاتھ میں یہ لوگ ییقیناًیہاں کی عوام کے خیرخواہ اورہمدرد نہیں ہیں،یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں صرف اقتدار چاہئے،اوراسکیلئے وہ کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں،عوام کیا چاہتی ہے،حکومت  سیانکا کیامطالبہ ہے،ملک کی کروڑوں عوام کیلئے ان لوگوں کیلئے کوئی لائحہ عمل نہیں، صرف ایک مخصوص ایجنڈا جومذہبی منافرت پر مبنی ہے اسکو نافذ کرنے کیچکر میں یہ لوگ  جلد بازی میں ہیں،ظاہر ہے ایسی حکومتوں کاوجود زیادہ دنوں تک نہیں رہ سکتا،5اگست کو جس طرح قانون کی دھجیاں اڑائی گئی اسکو دنیاںے دیکھا،کس طرح جمہوریت کوپیروں تلے روندا گیایہ بھی دنیا نے دیکھا،جمہوریت  کاجنازہ تو اسی دن نکل جس دن  دہشت گردوں نے بابری مسجدکو شہید کیا

اوراس پھر اس دن جس دن تمام دستاویزات اورثبوت وشواہد کے باوجود ملک کی سب سے بڑی عدالت"سپریم کورٹ"نے فیصلہ مسجد کے حق میں نہ کرکے،بابری مسجدکی تقریباً 70ایکڑ زمین انھیں لوگوں کیحوالے کردیا،جن لوگوں نیاسکو شہید کیاتھا،کیا یہ مضحکہ خیز نہیں ہے عدالت نے یہ ساری چیزیں دیکھنے کے باوجود مسلمانوں کیخلاف فیصلہ دیا،اسطرح جمہوریت کاجنازہ اسی دن یعنی 9نومبر2019 کے دن نکال دیا اورجوکچھ بچاتھا اسے گذشتہ 5اگست کو پوراکردیاگیا،یعنی جمہوریت کی تدفین کردی گئی،اب جولوگ  یہ سمجھ رہے ہیں کہ بابری مسجد قضیے کے بعد ہندو مسلم کیدرمیان نفرت کی جوخلیج انگریزوں نے پیداکی تھی وہ ختم ہوجائے گی،وہ لوگ یقیناً بہت بڑی غلط فہمی کے شکار ہیں،بلکہ اسکے بعد یہ نفرت  کاسلسہ اورآگے بڑھیگا،بابری مسجد کی طرح ملک بھر کی کم ازکم 3000مساجد جوان سنگھیوں کی فہرست میں ہیجس پرخطرات کیبادل منڈلانے لگے ہیں،کاشی اور متھرا کاقضیہ عدالت پہونچ چکاہے،کیاآپ کولگتاہے کہ جن لوگوں نے زبردستی طاقت کیبل بوتے پر بابری مسجد کوچھین لیاوہ لوگ اب خاموش ہوجائیں گے؟انکے حوصلے اور بلند ہوچکے ہیں اوراب یہ مٹھی بھر لوگ شرپسندی پراترآئے ہیں،بابری مسجد ایک اکیلی مسجد نہیں ہے جن کیساتھ ظلم ہوا اوراسے شہید کرکے وہاں اب مندر تعمیر کی جارہی ہے،ایسی اوربھی کئی ایک مساجد ہیں جسے حکومت  کی جانب سے شہیدکیاگیااورپھراسکی دوبارہ تعمیر کے جھوٹے وعدے کئیگئے کہ  ؓشہید مسجد دوبارہ  تعمیر ہوگی"ٹھیک اسی طرح جسطرح بابری مسجد کی شہادت کیوقت مسلمانوں سیاس وقت کی حکومت نے وعدہ کیاتھا

اور تیقن دیاتھا،لیکن کیاہوا؟کیا بابری مسجد ابتک تعمیر ہوئی؟ٹھیک اسی طرح اب ریاستی حکومت بھی مساجد شہید کرکے ان سے جھوٹے وعدے کررہی ہے،میں بات کررہاہوں ریاست تلنگانہ کی جہاں دوچار سال کے عرصے میں کم ازکم پانچ مساجد کوکسی نہ کسی بہانے سے شہید کردیاگیا،اورکئی سال گزرنے کیبعد ان میں سے ایک بھی مساجد اب تک دوبارہ تعمیر نہ ہوسکی،ان مساجد کو حکومت کیلوگوں نے خود شہیدکیا،اور مسلم قائدین اس معاملے میں ابھی تک ضمیر فروشی کامظاہرہ کررہے ہیں،آئیے ذرادیکھتے ہیں کہ حیدرآباد اورتلنگانہ کی پانچ کون کونسی مساجد کوکس وجہ سے شہید کیاگیا،اور پھر سیاسی پارٹی اور مسلم لیڈران نے اسکی بازیابی کیلئے کیاکوششیں کی؟متحدہ آندھرا پردیش کا دارالحکومت  شہر حیدرآباد میں 2007 میں جب کانگریس کی حکومت تھی،اسوقت انٹرنیشنل ایرپورٹ سے متصل"مسجد عمرفاروقؓ "ایرپورٹ  کی توسیع اور تعمیر کے نام پرشہیدکیاگیا،جہاں پانچوں نمازوں کیعلاوہ جمعہ کی نماز بھی ہوتی تھی،ایرپورٹ کیمسافراور ملازمین کیلئے وہ ایک واحد مسجد تھی جسکو شہید کردیاگیا،اور یہ مسجد ابتک دوبارہ تعمیر نہ ہوسکی،احتجاج کے باوجود  حکومت  نے ابتک اسے تعمیر نہ کرایا،وہ جگہ آج بھی ایسی ہی پڑی ہے

تلنگانہ  ریاست الگ ہونے کے بعد شہر کی ایک اور مسجد جسے"مسجد یکخانہ عنبرپیٹ"کے نام سے جاناجاتاہے،سڑک کی توسیع کے نام پردوسال قبل اس  مسجد کوبھی شہید کردیاگیا،لوگوں نے جب احتجاج کیاتوحکومت کے نمائندوں نے نرسمھاراؤ کی طرح مسلمانوں سے جھوٹا وعدہ کیا کہ دوبارہ اس مسجدکوہم تعمیر کریں گے،لیکن یہ صرف وعدہ ہی رہا آج بھی وہاں پرپولس کاپہرہ ہے نہ وہاں نماز پڑھنے کی اجازت ہے،18فروری 2014کو تلنگانہ  ملک کی 29ویں ریاست بنی،اسی دن لوک سبھا سے یہ بل پاس ہوا،لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں ہنگاموں کے درمیان  یہ بل پاس ہوااور ایک نئی ریاست وجود میں آگئی،یہ نئی ریاست بننیکے بعد اقتدار جنکے ہاتھ میں گیاانھوں نے وعدہ کیاکہ ہم اس ریاست کو"بنگارو تلنگانہ"یعنی سنہرا تلنگانہ  بنائیں گے،لیکن 6سال گذرنے کیبعد اب تک ایسا کچھ نہیں ہوا نہ ہی اس جانب کوئی پیش قدمی کی گئی،ریاست کے مسلمانوں سے موجودہ حکومت نے جتنے وعدے کئے تھے وہ سب کاغذی ثابت ہوئے،گویا یہ کہاجاسکتاہے کہ ریاست کی موجودہ حکومت  بھی مرکز کی سنگھی حکومت کے نقش قدم پر ہے،اور مسلم دشمنی انکے رگوں میں موجود ہے،سیکولر کا "چولا"پہننے والا کیسی آر،اندر میں "خاکی نیکر"زیب تن کئے ہوئے ہے،یہ نرسمھا راؤ کو اپنا گرو بھی بتاتاہے،اور آج کل نرسمھاراؤ کی صدی تقاریب منانے کااس نے اعلان کیاتھا،جو ایک سال تک منایاجائیگا،اور اس پرکروڑوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں،پورے شہر میں نرسمھاراؤ جو بابری مسجد کی شہادت کااصل اورکلیدی مجرم ہے اسکی تصویریں پورے شہر میں لگادی گئی ہے،ہرجگہ انکی تصویروں سے شہرکو بھردیاگیاہے،سوال یہ ہے کہ مسلمانوں اور انکی مساجد سے نفرت کرنے والوں سے دوستی کرنیوالے اورانکو اپناگرو بتانے والے"سیکولر سی ایم"مسلمانوں کے دوست کیسے ہوسکتے ہیں؟
عنبر پیٹ کی "یکخانہ مسجد"کی شہادت کے صرف دوماہ بعد،شہر حیدرآباد سے متصل ضلع کھمم کے کتہ گوڑم میں ایک مسجد غیر قانونی  کہہ کر محکمہ جنگلات کے عہدے داروں نے شہید کردیا،اور اب تک یہ مسجد تعمیر نہ ہوسکی، ریاست کی یہ تیسری مسجد ہے جسے حکومت کے لوگوں نے شہید کیا

گزشتہ ماہ یعنی ماہ جولائی  کے پہلے ہفتے میں حیدرآباد سکریٹریٹ کی دومساجد"مسجد ہاشمی"اور دوسری "مسجد معتمدی"یہ دونوں مسجدیں سکریٹریٹ کیعلاقے میں واقع تھی جوآزادی سے قبل نظام حیدرآباد،میرعثمان علی نے تعمیرکی تھی اوران دونوں مساجد میں نمازیں ہورہی تھیں،اسکے باوجود ایک منظم طور پرانتہائی خفیہ انداز میں شہید کردیاگیا،شہادت سے کئی دن قبل ان مسجدوں کے امام،مؤذن اوراسکوخادموں کومسجد آنے سے منع کردیاگیاتھا،ایک ہفتے کے بعد جب یہ خبر لوگوں کو پہونچی اور چہ می گوئیاں شروع ہوئی تو سی ایم کیسی آر نے ایک پریس کانفرنس کی،جس میں انتہائی بیشرمی کیساتھ جھوٹ بولتے ہوئے یہ کہاکہ"اوپر سے ملبہ گرنیکی وجہ سیمسجد کومعمولی نقصان پہونچاہیجسکا مجھے بیحد افسوس ہے"یہ کام اتنی رازداری سے کیاگیا کہ سکریٹریٹ کوآنے والی تمام سڑکوں کو دوکیلو میٹر پہلے ہی بندکردیاگیاتھا،جوملازمین سکریٹریٹ کی انہدامی کارروائی میں شریک تھے انھیں موبائل لیجانے کی اجازت نہیں تھی،میڈیا کے نمائندوں پربھی پابندی لگادی گئی تھی،اسطرح سکریٹریٹ کے ساتھ ان دونوں مساجد کوشہیدکردیاگیا،سکریٹریٹ کی پوری عمارت 8ایکڑ پر مشتمل تھی،اسطرح نیاسکریٹریٹ جوحکومت تعمیر کررہی ہے یہ 8 ایکڑ زمین پر تعمیر ہورہاہے اور پہلی قسط کیلئے 500کروڑ روپے اسکی نئی تعمیر کیلئے جاری کیاہے، سکریٹریٹ کا یہ پوراحصہ مسجد کے نام پر وقف ہے،اسی سرزمین پرسکریٹریٹ تعمیر کیاگیاتھا، یہ  عمارت بھی شہر کی خوبصورت عمارتوں میں سے ایک تھی جسے نظام حیدرآباد نے تعمیرکیاتھا،آج کل کیسی آر ان عمارتوں کو چن چن کر منہدم کرارہے ہیں جونظام حیدرآباد کی یادگار ہیں،ان دونوں مساجد کی شہادت کے بعد لوگوں کی بیچینی کودیکھتیہوئے، اگرچہ کے سی آرنے یہ بیان دیاہے کہ حکومت کے خرچ سے سکریٹریٹ کے علاقے میں ہی ایک خوبصورت مسجد تعمیرکرائی جائیگی

یہ دونوں مسجدیں غلطی سے شہید ہوگئیں،جب چیف منسٹر کایہ بیان آیاتو "نقیب ملت"اور پورے ملک کے مسلمانوں کے قائد بننے کے دعویدار ایم پی اسد اویسی صاحب نے چیف منسٹر کومبارکباد دی اور انکا شکریہ اداکیا،لیکن سوال یہ ہے کہ کیاشہید مساجد اسی مقام پر تعمیر ہوگی؟اور جب دومسجدیں شہید کی گئیں توصرف ایک مسجد ہی حکومت تعمیر کرائیگی؟اسکی وضاحت بھی حکومت کانمائندہ نہیں کررہاہے سوال یہ بھی ہیکہ جس سی ایم نے گزشتہ 6سال میں مسلمانوں سے صرف وعدہ کیاجس میں ایک بھی اب تک پورانہیں ہوا کیسے یقین کرلیاجائے کہ وہ مسجد کو تعمیر کرائیں گے،خود غرضی اور مفاد پرستی اس حد تک سرایت کرچکی ہے کہ اب مسلم لیڈران  اور مسلم پارٹی کے قائدین بھی ضمیرفروشی کی راہ میں چل پڑے ہیں،انھیں صرف اپناعہدہ عزیز ہے قوم کیا چاہتی ہے وقت کی ضرورت کیا ہے مسلم لیڈران یہ سوچنے سے قاصر ہیں،ہرایک کواپنی پارٹی اور اینا مفاد عزیز ہے، ریاست میں پانچ مساجد ہونے کے باوجود اب تک کسی مسلم عہدے داران نیاستعفی تک نہیں دیا اورنہ کوئی مؤثر احتجاج درج کرایا، مسلم تنظیموں کیکئی عہدے داران کی منافقت دیکھئے کہ انھوں صرف اردو اخبارات میں مذمتی بیان تودیدیا لیکن اپنے عہدوں کو چھوڑنے کیلئے وہ تیار نہیں،حیدرآباد کی مسلم سیاسی پارٹی جوحکومت میں شریک ہے اور جنہیں پورے ملک کے مسلمانوں کی فکر ہے یہ لوگ اپنی ریاست اوراپنے گھرمیں اتنے حساس معاملے پرمصلحت کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں

یہ بابری مسجد کی شہادت پر ایک زمانے تک سیاست توکرتے رہے اور مگرمچھ کے آنسو بہاتے رہے لیکن شہر کی مساجد کی بازیابی کیلئے اب تک انھوں نے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیا،سی اے اے اور این آر سی کے احتجاج کے موقع پر ان لوگوں کاکردار بھی افسوسناک تھا،شہر میں یہ لوگ  ایک شاہین باغ نہ قائم کرسکے اور نہ ہی اس میں لوگوں کاکوئی تعاون کیا، ملک کی آزادی کیبعد جسطرح کانگریس  اوردیگر سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کو نقصان پہونچایا،اور حاشیہ پرلاکھڑاکیا مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس  نہیں کہ نام نہاد مسلم پارٹیوں اور مسلم لیڈران نے بھی اپنے مفاد کیلئے قوم کوبیچا اور برباد کیا،آج ملک بھر مسلمانوں کی جوحالت ہے اس میں نام نہاد مسلم لیڈران اور موروثی قیادت کابھی اہم کردارہے ،اسلئے اب مسلمانوں کو یہ  نئے سرے سے سوچنا ہوگا کہ آخر ہماراسچادوست کون ہے اور دشمن کون ہے؟ملک کے مسلمان  انتہائی  نازک دور سے گزررہے ہیں ایسے میں اگرہم نے ایک منظم منصوبہ بندی نہ کی اور مناسب لائحہ عمل طے نہ کیا تو پھر اللہ ہی ہمارامالک ہے،حالات دن بہ دن بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں ایسے میں یہ وقت ہمارے لئے انتہائی غور وفکر اور سنجیدگی کے ساتھ کوئی راہ نکالنے کی ہے،قیادتیں وہی پائیدار ہوتی ہیں اورحقیقی قیادت وہی کہلاتی ہے جو مسلسل جدوجہد،عزم مصمم،اخلاص رمزشناسی کے ذریعے وجود میں آتی ہے،موروثی قیادت قوم کی نیا پارلگائیآج کے زمانے میں اسکے امکانات بہت کم ہیں اسلئے حقیقی قیادت ہمیں پیدا کرناہوگا ورنہ اسی طرح کی سودے بازی ہوتی رہیگی اور قوم کو بیچاجاتارہے گا،اللہ تعالیٰ خیر کامعاملہ فرمائے۔
(مضمون نگار کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad